‌صحيح البخاري - حدیث 3077

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الفَتْحِ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: «لاَ هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3077

کتاب: جہاد کا بیان باب : فتح مکہ کے بعد وہاں سے ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں رہی ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا ‘ ان سے منصور نے‘ان سے مجاہد نے‘ ان سے طاؤس نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا‘ اب ہجرت (مکہ سے مدینہ کےلئے) باقی نہیں رہی‘ البتہ حسن نیت اور جہاد باقی ہے۔ اس لئے جب تمہیں جہا د کے لئے بلایا جائے تو فوراً نکل جاؤ۔
تشریح : خاص مکہ سے مدینہ منورہ کی ہجرت مراد ہے۔ پہلے جب مکہ دارالاسلام نہیں تھا اور مسلمانوں کو وہاں آزادی نہیں تھی‘ تو وہاں سے ہجرت ضروری ہوئی۔ لیکن اب مکہ اسلامی حکومت کے تحت آ چکا۔ اس لئے یہاں سے ہجرت کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا۔ یہ معنی ہرگز نہیں کہ سرے سے ہجرت کا حکم ہی ختم ہو گیا۔ کیونکہ جب تک دنیا قائم ہے اور جب تک کفر و اسلام کی کشمکش باقی ہے‘ اس وقت تک ہر اس خطہ سے جہاں مسلمانوں کو احکام اسلام پر عمل کرنے کی آزادی حاصل نہ ہو‘ دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا فرض ہے۔ ہجرت کے لغوی معنی چھوڑنا‘ اصطلاح میں اسلام کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر دارالاسلام میں جا رہنا‘ اگر یہ ہجرت رضائے الٰہی کے لئے مقررہ اصولوں کے تحت کی جائے تو اسلام میں اس کا بڑا درجہ ہے۔ اور اگر دنیا طلبی یا اور کوئی غرض فاسد ہو تو اس ہجرت کا عنداللہ کوئی ثواب نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ شروع ہی میں حدیث انما الاعمال بالنیات نقل فرما چکے ہیں۔ اس دور پر فتن میں بھی یہی حکم ہے۔ جو لوگ کسی ملک میں مہاجر کے نام سے مشہور ہوں ان کو خود فیصلہ کرنا ہے وہ مہاجر کس قسم کے ہیں۔ ﴿بَلِ الْاِنْسَانِ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ﴾ (القیامۃ: ۱۵‘۱۴) کا یہی مطلب ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ خود گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں اور اپنے بارے میں خود فیصلہ کریں۔ خاص مکہ سے مدینہ منورہ کی ہجرت مراد ہے۔ پہلے جب مکہ دارالاسلام نہیں تھا اور مسلمانوں کو وہاں آزادی نہیں تھی‘ تو وہاں سے ہجرت ضروری ہوئی۔ لیکن اب مکہ اسلامی حکومت کے تحت آ چکا۔ اس لئے یہاں سے ہجرت کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا۔ یہ معنی ہرگز نہیں کہ سرے سے ہجرت کا حکم ہی ختم ہو گیا۔ کیونکہ جب تک دنیا قائم ہے اور جب تک کفر و اسلام کی کشمکش باقی ہے‘ اس وقت تک ہر اس خطہ سے جہاں مسلمانوں کو احکام اسلام پر عمل کرنے کی آزادی حاصل نہ ہو‘ دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا فرض ہے۔ ہجرت کے لغوی معنی چھوڑنا‘ اصطلاح میں اسلام کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر دارالاسلام میں جا رہنا‘ اگر یہ ہجرت رضائے الٰہی کے لئے مقررہ اصولوں کے تحت کی جائے تو اسلام میں اس کا بڑا درجہ ہے۔ اور اگر دنیا طلبی یا اور کوئی غرض فاسد ہو تو اس ہجرت کا عنداللہ کوئی ثواب نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ شروع ہی میں حدیث انما الاعمال بالنیات نقل فرما چکے ہیں۔ اس دور پر فتن میں بھی یہی حکم ہے۔ جو لوگ کسی ملک میں مہاجر کے نام سے مشہور ہوں ان کو خود فیصلہ کرنا ہے وہ مہاجر کس قسم کے ہیں۔ ﴿بَلِ الْاِنْسَانِ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ﴾ (القیامۃ: ۱۵‘۱۴) کا یہی مطلب ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ خود گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں اور اپنے بارے میں خود فیصلہ کریں۔