كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ البِشَارَةِ فِي الفُتُوحِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسٌ، قَالَ: قَالَ لِي جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الخَلَصَةِ»، وَكَانَ بَيْتًا فِيهِ خَثْعَمُ، يُسَمَّى كَعْبَةَ اليَمَانِيَةِ، فَانْطَلَقْتُ فِي خَمْسِينَ وَمِائَةٍ مِنْ أَحْمَسَ، وَكَانُوا أَصْحَابَ خَيْلٍ، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي لاَ أَثْبُتُ عَلَى الخَيْلِ، فَضَرَبَ فِي صَدْرِي حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ أَصَابِعِهِ فِي صَدْرِي، فَقَالَ: «اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ، وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا»، فَانْطَلَقَ إِلَيْهَا، فَكَسَرَهَا وَحَرَّقَهَا، فَأَرْسَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُهُ، فَقَالَ رَسُولُ جَرِيرٍ لِرَسُولِ اللَّهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ، مَا جِئْتُكَ حَتَّى تَرَكْتُهَا كَأَنَّهَا جَمَلٌ أَجْرَبُ، فَبَارَكَ عَلَى خَيْلِ أَحْمَسَ وَرِجَالِهَا خَمْسَ مَرَّاتٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ: بَيْتٌ فِي خَثْعَمَ
کتاب: جہاد کا بیان
باب : فتح کی خوشخبری دینا
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسماعیل بن ابو خالد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ ذی الخلصہ ( یمن کے کعبے ) کو تباہ کر کے مجھے کیوں خوش نہیں کرتے ۔ یہ ذی الخلصہ ( یمن کے قبیلہ ) خثعم کا بت کدہ تھا ( کعبے کے مقابل بنایا تھا ) جسے کعبۃ الیمانیہ کہتے تھے ۔ چنانچہ میں ( اپنے قبیلہ ) احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر تیار ہوگیا ۔ یہ سب اچھے شہسوار تھے ۔ پھر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں گھوڑے پر اچھی طرح سے جم نہیں پاتا تو آپ نے میرے سینے پر ( دست مبارک ) مارا اورمیں نے آپ کی انگلیوں کا نشان اپنے سینے پر دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہ دعا دی ‘ اے اللہ ! اسے گھوڑے پر جما دے اور اسے صحیح
تشریح :
خارش زدہ اونٹ بال وغیرہ جھڑ کر کالا اور دبلا پڑ جاتا ہے۔ اسی طرح ذی الخلصہ جل بھن کر چھت وغیرہ گر کر کالا پڑ گیا تھا۔ باب کا مطلب اس طرح نکلا کہ جریر رضی اللہ عنہ نے کام پورا کر کے آپ ﷺکو خوش خبری بھیجی۔ فساد اور بد امنی کے مراکز کو ختم کرنا‘ قیام امن کے لئے ضروری ہے۔ خواہ وہ مراکز مذہب ہی کے نام پر بنائے جائیں۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے مدینہ میں ایک مسجد کو بھی گرا دیا جو مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی۔
خارش زدہ اونٹ بال وغیرہ جھڑ کر کالا اور دبلا پڑ جاتا ہے۔ اسی طرح ذی الخلصہ جل بھن کر چھت وغیرہ گر کر کالا پڑ گیا تھا۔ باب کا مطلب اس طرح نکلا کہ جریر رضی اللہ عنہ نے کام پورا کر کے آپ ﷺکو خوش خبری بھیجی۔ فساد اور بد امنی کے مراکز کو ختم کرنا‘ قیام امن کے لئے ضروری ہے۔ خواہ وہ مراکز مذہب ہی کے نام پر بنائے جائیں۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے مدینہ میں ایک مسجد کو بھی گرا دیا جو مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی۔