كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ ذَبْحِ الإِبِلِ وَالغَنَمِ فِي المَغَانِمِ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي الحُلَيْفَةِ، فَأَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ، وَأَصَبْنَا إِبِلًا وَغَنَمًا، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُخْرَيَاتِ النَّاسِ، فَعَجِلُوا فَنَصَبُوا القُدُورَ، فَأَمَرَ بِالقُدُورِ، فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَسَمَ، فَعَدَلَ عَشَرَةً مِنَ الغَنَمِ بِبَعِيرٍ، فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ، وَفِي القَوْمِ خَيْلٌ يَسِيرَةٌ، فَطَلَبُوهُ فَأَعْيَاهُمْ، فَأَهْوَى إِلَيْهِ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ، فَقَالَ: «هَذِهِ البَهَائِمُ لَهَا أَوَابِدُ كَأَوَابِدِ الوَحْشِ، فَمَا نَدَّ عَلَيْكُمْ، فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا». فَقَالَ جَدِّي: إِنَّا نَرْجُو، أَوْ نَخَافُ أَنْ نَلْقَى العَدُوَّ غَدًا، وَلَيْسَ مَعَنَا مُدًى، أَفَنَذْبَحُ بِالقَصَبِ؟ فَقَالَ: مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلْ، لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ: أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الحَبَشَةِ
کتاب: جہاد کا بیان
باب : مال غنیمت کے اونٹ بکریوں کو تقسیم سے پہلے ذبح کرنا مکروہ ہے
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو عوانہ وضاح شکری نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن مسروق نے ‘ ان سے عبایہ بن رفاعہ نے اور ان سے ان کے دادا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مقام ذوالحلیفہ میں ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑاؤ کیا ۔ لوگ بھوکے تھے ۔ ادھر غنیمت میں ہمیں اونٹ اور بکریاں ملی تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے پیچھے حصے میں تھے ۔ لوگوں نے ( بھوک کے مارے ) جلدی کی ہانڈیاں چڑھادیں ۔ بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان ہانڈیوں کو اوندھا دیا گیا پھر آپ نے غنیمت کی تقسیم شروع کی دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا اتفاق سے مال غنیمت کا ایک اونٹ بھاگ نکلا ۔ لشکر میں گھوڑوں کی کمی تھی ۔ لوگ اسے پکڑنے کے لئے دوڑے لیکن اونٹ نے سب کو تھکادیا ۔ آخر ایک صحابی ( خود رافع رضی اللہ عنہ ) نے اسے تیرمارا ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اونٹ جہاں تھا وہیں رہ گیا ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان ( پالتو ) جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح بعض دفعہ وحشت ہو جاتی ہے ۔ اس لئے اگر ان میں سے کوئی قابو میں نہ آئے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو ۔ عبایہ کہتے ہیں کہ میرے دادا ( رافع رضی اللہ عنہ ) نے خدمت نبوی میں عرض کیا ‘ کہ ہمیں امید ہے یا ( یہ کہا کہ ) خوف ہے کہ کل کہیں ہماری دشمن سے مڈبھیڑ نہ ہو جائے ۔ ادھر ہمارے پاس چھری نہیں ہے ۔ توکیا ہم بانس کی کھپچیوں سے ذبح کر سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چیز خون بہادے اور ذبح کرتے وقت اس پر اللہ تعالیٰ کا نام بھی لیا گیا ہو ‘ تو اس کا گوشت کھانا حلال ہے ۔ البتہ وہ چیز ( جس سے ذبح کیا گیا ہو ) دانت اور ناخن نہ ہونا چاہئے ۔ تمہارے سامنے میں اس کی وجہ بھی بیان کرتا ہوں دانت تو اس لئے نہیں کہ وہ ہڈی ہے اور ناخن اس لئے نہیں کہ وہ حبشیوں کی چھری ہیں ۔ باب فتح کی خوش خبری دینا
تشریح :
رافع رضی اللہ عنہ کے کلام کا مطلب یہ ہے کہ تلوار سے ہم جانوروں کو اس لئے نہیں کاٹ سکتے کہ کل پرسوں جنگ کا اندیشہ ہے۔ ایسا نہ ہو تلواریں کند ہو جائیں۔ تو کیا ہم بانس کی کھپچیوں سے کاٹ لیں کہ ان میں بھی دھار ہوتی ہے۔ ہڈی جنوں کی خوراک ہوتی ہے ذبح کرنے سے نجس ہو جائے گی۔ ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں حبشی اس وقت کافر تھے تو آپ نے ان کی مشابہت سے منع فرمایا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ وموضع الترجمۃ منہ امرہ صلی اللہ علیہ وسلم باکفاء القدور فانہ مشعر بکراہۃ ما صنعوا من الذبح بغیر اذن (ف) یعنی باب کا مطلب اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریمﷺ نے ہانڈیوں کو الٹا کر دیا۔ اس لئے کہ بغیر اجازت ان کا ذبیحہ مکروہ تھا۔ شوربا بہا دیا گیا۔ واما اللحم فلم یتلف بل یحمل علٰی انہ جمع ورد الی المغانم یعنی گوشت کو تلف کرنے کی بجائے جمع کر کے مال غنیمت میں شامل کر دیا گیا۔ واللہ اعلم بالصواب
رافع رضی اللہ عنہ کے کلام کا مطلب یہ ہے کہ تلوار سے ہم جانوروں کو اس لئے نہیں کاٹ سکتے کہ کل پرسوں جنگ کا اندیشہ ہے۔ ایسا نہ ہو تلواریں کند ہو جائیں۔ تو کیا ہم بانس کی کھپچیوں سے کاٹ لیں کہ ان میں بھی دھار ہوتی ہے۔ ہڈی جنوں کی خوراک ہوتی ہے ذبح کرنے سے نجس ہو جائے گی۔ ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں حبشی اس وقت کافر تھے تو آپ نے ان کی مشابہت سے منع فرمایا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ وموضع الترجمۃ منہ امرہ صلی اللہ علیہ وسلم باکفاء القدور فانہ مشعر بکراہۃ ما صنعوا من الذبح بغیر اذن (ف) یعنی باب کا مطلب اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریمﷺ نے ہانڈیوں کو الٹا کر دیا۔ اس لئے کہ بغیر اجازت ان کا ذبیحہ مکروہ تھا۔ شوربا بہا دیا گیا۔ واما اللحم فلم یتلف بل یحمل علٰی انہ جمع ورد الی المغانم یعنی گوشت کو تلف کرنے کی بجائے جمع کر کے مال غنیمت میں شامل کر دیا گیا۔ واللہ اعلم بالصواب