‌صحيح البخاري - حدیث 3073

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ الغُلُولِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو زُرْعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الغُلُولَ فَعَظَّمَهُ وَعَظَّمَ أَمْرَهُ، قَالَ: لاَ أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ، عَلَى رَقَبَتِهِ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ، وَعَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ، وَعَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ، أَوْ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لاَ أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا، قَدْ أَبْلَغْتُكَ وَقَالَ أَيُّوبُ: عَنْ أَبِي حَيَّانَ: فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3073

کتاب: جہاد کا بیان باب : مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ چرا لینا ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے ابو حیان نے بیان کیا ‘ ان سے ابو زرعہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور غلول ( خیانت ) کا ذکر فرمایا ‘ اس جرم کی ہولناکی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم میں کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو اور وہ چلا رہی ہو یااس کی گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہوا ور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ ! میری مدد فرمائیے ۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ۔ میں تو ( خدا کا پیغام ) تم تک پہنچا چکا تھا ۔ اور اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہواور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ ! میری مدد فرئیے ۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ‘ میں خدا کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا ‘ یا ( وہ اس حال میں آئے کہ ) وہ اپنی گردن پر سونا ‘ چاندی ‘ اسباب لادے ہوئے ہو اور وہ مجھ سے کہے ‘ یا رسول اللہ ! میری مدد فرمایئے ‘ لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ‘ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا ۔ یا اس کی گردن پر کپڑے کے ٹکڑے ہو اسے حرکت کر رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ‘ میں تو ( خدا کا پیغام ) پہلے ہی پہنچا چکا تھا ۔ اور ایوب سختیانی نے بھی ابو حیان سے روایت کیا ہے گھوڑا لادے دیکھوں جو ہنہنا رہا ہو ۔
تشریح : فتح اسلام کے بعد میدان جنگ میں جو بھی اموال ملیں وہ سب مال غنیمت کہلاتا ہے۔ اسے باضابطہ امیر اسلام کے ہاں جمع کرنا ہو گا۔ بعد میں شرعی تقسیم کے تحت وہ مال دیا جائے گا۔ اس میں خیانت کرنے والا عنداللہ بہت بڑا مجرم ہے جیسا کہ حدیث ہذا میں بیان ہوا ہے۔ بکری‘ گھوڑا‘ اونٹ یہ سب چیزیں تمثیل کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ روایت میں اموال غنیمت میں سے ایک چادر کے چرانے والے کو بھی دوزخی کہا گیا ہے۔ چنانچہ وہ حدیث آگے مذکور ہے۔ قال المہلب ہذا الحدیث وعید لمن انفذہ اللہ علیہ من اہل المعاصی ویحتمل ان یکون الحمل المذکور لا بدمنہ عقوبۃ لہ بذالک لیفتضح علی روس الاشہاد و اما بعد ذلک فالی اللہ الامر فی تعذیبہ او العفو عنہ وقال غیرہ ہذا الحدیث یفسر قولہ عزوجل یات بما غل یوم القیمۃ ای یات بہ حاملا لہ علی رقبتہ (فتح) یعنی اس حدیث میں وعید ہے اہل معاصی کے لئے۔ احتمال ہے کہ یہ اٹھانا بطور عذاب اس کے لئے ضروری ہو‘ تاکہ وہ سب کے سامنے ذلیل ہو‘ بعد میں اللہ کو اختیار ہے چاہے اسے عذاب کرے‘ چاہے معاف کرے۔ یہ حدیث آیت کریمہ ﴿یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ﴾ (آل عمران: ۱۶۱) کی تفسیر بھی ہے کہ وہ عاصی اس خیانت کو قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔ فتح اسلام کے بعد میدان جنگ میں جو بھی اموال ملیں وہ سب مال غنیمت کہلاتا ہے۔ اسے باضابطہ امیر اسلام کے ہاں جمع کرنا ہو گا۔ بعد میں شرعی تقسیم کے تحت وہ مال دیا جائے گا۔ اس میں خیانت کرنے والا عنداللہ بہت بڑا مجرم ہے جیسا کہ حدیث ہذا میں بیان ہوا ہے۔ بکری‘ گھوڑا‘ اونٹ یہ سب چیزیں تمثیل کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ روایت میں اموال غنیمت میں سے ایک چادر کے چرانے والے کو بھی دوزخی کہا گیا ہے۔ چنانچہ وہ حدیث آگے مذکور ہے۔ قال المہلب ہذا الحدیث وعید لمن انفذہ اللہ علیہ من اہل المعاصی ویحتمل ان یکون الحمل المذکور لا بدمنہ عقوبۃ لہ بذالک لیفتضح علی روس الاشہاد و اما بعد ذلک فالی اللہ الامر فی تعذیبہ او العفو عنہ وقال غیرہ ہذا الحدیث یفسر قولہ عزوجل یات بما غل یوم القیمۃ ای یات بہ حاملا لہ علی رقبتہ (فتح) یعنی اس حدیث میں وعید ہے اہل معاصی کے لئے۔ احتمال ہے کہ یہ اٹھانا بطور عذاب اس کے لئے ضروری ہو‘ تاکہ وہ سب کے سامنے ذلیل ہو‘ بعد میں اللہ کو اختیار ہے چاہے اسے عذاب کرے‘ چاہے معاف کرے۔ یہ حدیث آیت کریمہ ﴿یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ﴾ (آل عمران: ۱۶۱) کی تفسیر بھی ہے کہ وہ عاصی اس خیانت کو قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔