كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَنْ تَكَلَّمَ بِالفَارِسِيَّةِ وَالرَّطَانَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ الحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ، أَخَذَ تَمْرَةً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ، فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالفَارِسِيَّةِ: «كِخْ كِخْ، أَمَا تَعْرِفُ أَنَّا لاَ نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : فارسی یا اور کسی بھی عجمی زبان میں بولنا
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن زیاد نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے صدقہ کی کھجور میں سے ( جو بیت المال میں آئی تھی ) ایک کھجور اٹھالی اور اپنے منہ کے قریب لے گئے ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فارسی زبان کا یہ لفظ کہہ کر روک دیا کہ ” کخ کخ ‘ ‘ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے ہیں ۔
تشریح :
کخ کخ فارسی زبان میں بچوں کو ڈانٹنے کے لئے کہتے ہیں جب وہ کوئی گندہ کام کریں۔ اس سے بھی عربی کے علاوہ دوسری زبانوں کا استعمال جائز ثابت ہوا۔ خصوصاً فارسی زبان جو عرصہ دراز سے مسلمانوں کی محبوب ترین زبان رہی ہے۔ جس میں اسلامیات کا ایک بڑا خزانہ محفوظ ہے۔ میدان جنگ میں حسب ضرورت ہر زبان کا استعمال جائز ہے۔
فارسی کی وجہ تسمیہ حافظ صاحب بیان فرماتے ہیں: قیل انہم ینتسبون الیٰ فارس بن کومرث قیل انہ من ذریۃ سام بن نوح و قیل من ذریۃ یافث بن نوح و قیل انہ من اٰدم لصلبہ وقیل انہ اٰدم نفسہ وقیل لہم الفرس لان جدہم الاعلیٰ ولد لہ سبعۃ عشر ولداً کان کل منہم شجاعًا فارسا فسموا الفرس (فتح) یعنی اس ملک کے باشندے فارس بن کومرث کی طرف منسوب ہیں جو سام بن نوح یا یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں‘ بعض نے ان کو آدم کا بیٹا اور بعض نے خود آدم بھی کہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے مورث اعلیٰ کے سترہ لڑکے پیدا ہوئے جو سب بہادر شہسوار تھے اس لئے ان کی اولاد کو فارس کہا گیا‘ واللہ اعلم۔
کخ کخ فارسی زبان میں بچوں کو ڈانٹنے کے لئے کہتے ہیں جب وہ کوئی گندہ کام کریں۔ اس سے بھی عربی کے علاوہ دوسری زبانوں کا استعمال جائز ثابت ہوا۔ خصوصاً فارسی زبان جو عرصہ دراز سے مسلمانوں کی محبوب ترین زبان رہی ہے۔ جس میں اسلامیات کا ایک بڑا خزانہ محفوظ ہے۔ میدان جنگ میں حسب ضرورت ہر زبان کا استعمال جائز ہے۔
فارسی کی وجہ تسمیہ حافظ صاحب بیان فرماتے ہیں: قیل انہم ینتسبون الیٰ فارس بن کومرث قیل انہ من ذریۃ سام بن نوح و قیل من ذریۃ یافث بن نوح و قیل انہ من اٰدم لصلبہ وقیل انہ اٰدم نفسہ وقیل لہم الفرس لان جدہم الاعلیٰ ولد لہ سبعۃ عشر ولداً کان کل منہم شجاعًا فارسا فسموا الفرس (فتح) یعنی اس ملک کے باشندے فارس بن کومرث کی طرف منسوب ہیں جو سام بن نوح یا یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں‘ بعض نے ان کو آدم کا بیٹا اور بعض نے خود آدم بھی کہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے مورث اعلیٰ کے سترہ لڑکے پیدا ہوئے جو سب بہادر شہسوار تھے اس لئے ان کی اولاد کو فارس کہا گیا‘ واللہ اعلم۔