كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ كِتَابَةِ الإِمَامِ النَّاسَ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اكْتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَّظَ بِالإِسْلاَمِ مِنَ النَّاسِ»، فَكَتَبْنَا لَهُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةِ رَجُلٍ، فَقُلْنَا: نَخَافُ وَنَحْنُ أَلْفٌ وَخَمْسُ مِائَةٍ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا ابْتُلِينَا، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيُصَلِّي وَحْدَهُ وَهُوَ خَائِفٌ. حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ فَوَجَدْنَاهُمْ خَمْسَ مِائَةٍ. قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: مَا بَيْنَ سِتِّ مِائَةٍ إِلَى سَبْعِ مِائَةٍ
کتاب: جہاد کا بیان
باب : خلیفہ اسلام کی طرف سے مردم شماری کرانا
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے ابو وائل نے اوران سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگ اسلام کا کلمہ پڑھ چکے ہیں ان کے نام لکھ کرمیرے پاس لاؤ ۔ چنانچہ ہم نے ڈیڑھ ہزار مردوں کے نام لکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے اور ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ہماری تعداد ڈیڑھ ہزار ہو گئی ہے ۔ اب ہم کوکیا ڈر ہے ۔ لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ) ہم فتنوں میں اس طرح گھر گئے کہ اب مسلمان تنہا نماز پڑھتے ہوئے بھی ڈرنے لگا ہے ۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ ان سے ابو حمزہ نے اور ان سے اعمش نے ( مذکورہ بالاسند کے ساتھ ) کہ ہم نے پانچ سو مسلمانوں کی تعداد لکھی ( ہزار کا ذکر اس روایت میں نہیں ہوا ) اور ابو معاویہ نے ( اپنی روایت میں ) یوں بیا ن کیا ‘ کہ چھ سو سے سات سو تک ۔
تشریح :
ابو معاویہ کی روایت کو امام مسلم اور احمد اور نسائی اور ابن ماجہ نے نکالا ہے۔ وسلک الداودی الشارح طریق الجمع فقال لعلہم کتبوا مرات فی مواطن یعنی تعداد میں اختلاف اس لئے ہوا کہ شاید ان لوگوں نے کئی جگہ مردم شماری کی ہو‘ بعض نے یہ بھی کہا کہ ڈیڑھ ہزار سے مراد مرد عورت بچے غلام جو بھی مسلمان ہوئے سب مراد ہیں اور چھ سو سے سات سو تک خاص مرد مراد ہیں اور پانچ سو سے خالص لڑنے والے مراد ہیں۔ وفی الحدیث مشروعیۃ کتابۃ دواوین الجیوش وقد یتعین ذالک عند الاحتیاج الی تمیز من یصلح للمقاتلۃ بمن لا یصلح (فتح)
حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرتﷺ کے عہد مبارک میں تو ہم ڈیڑھ ہزار کا شمار پورے ہونے پر بے ڈر ہو گئے تھے اور اب ہزاروں لاکھوں مسلمان موجود ہیں‘ یہ حق بات کہتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ کوئی کوئی تو ڈر کے مارے اپنی نماز اکیلے پڑھ لیتا ہے اور منہ سے کچھ نہیں نکال سکتا۔ یہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس زمانے میں کہا جب ولید بن عقبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا اور نمازیں اتنی دیر کر کے پڑھتا کہ معاذ اللہ۔ آخر بعض متقی لوگ اوّل وقت نماز پڑھ لیتے پھر جماعت میں بھی اس کے ڈر سے شریک ہو جاتے۔
ابو معاویہ کی روایت کو امام مسلم اور احمد اور نسائی اور ابن ماجہ نے نکالا ہے۔ وسلک الداودی الشارح طریق الجمع فقال لعلہم کتبوا مرات فی مواطن یعنی تعداد میں اختلاف اس لئے ہوا کہ شاید ان لوگوں نے کئی جگہ مردم شماری کی ہو‘ بعض نے یہ بھی کہا کہ ڈیڑھ ہزار سے مراد مرد عورت بچے غلام جو بھی مسلمان ہوئے سب مراد ہیں اور چھ سو سے سات سو تک خاص مرد مراد ہیں اور پانچ سو سے خالص لڑنے والے مراد ہیں۔ وفی الحدیث مشروعیۃ کتابۃ دواوین الجیوش وقد یتعین ذالک عند الاحتیاج الی تمیز من یصلح للمقاتلۃ بمن لا یصلح (فتح)
حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرتﷺ کے عہد مبارک میں تو ہم ڈیڑھ ہزار کا شمار پورے ہونے پر بے ڈر ہو گئے تھے اور اب ہزاروں لاکھوں مسلمان موجود ہیں‘ یہ حق بات کہتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ کوئی کوئی تو ڈر کے مارے اپنی نماز اکیلے پڑھ لیتا ہے اور منہ سے کچھ نہیں نکال سکتا۔ یہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس زمانے میں کہا جب ولید بن عقبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا اور نمازیں اتنی دیر کر کے پڑھتا کہ معاذ اللہ۔ آخر بعض متقی لوگ اوّل وقت نماز پڑھ لیتے پھر جماعت میں بھی اس کے ڈر سے شریک ہو جاتے۔