كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ إِذَا أَسْلَمَ قَوْمٌ فِي دَارِ الحَرْبِ، وَلَهُمْ مَالٌ وَأَرَضُونَ، فَهِيَ لَهُمْ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اسْتَعْمَلَ مَوْلًى لَهُ يُدْعَى هُنَيًّا عَلَى الحِمَى، فَقَالَ: يَا هُنَيُّ اضْمُمْ جَنَاحَكَ عَنِ المُسْلِمِينَ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فَإِنَّ دَعْوَةَ المَظْلُومِ مُسْتَجَابَةٌ، وَأَدْخِلْ رَبَّ الصُّرَيْمَةِ، وَرَبَّ الغُنَيْمَةِ، وَإِيَّايَ وَنَعَمَ ابْنِ عَوْفٍ، وَنَعَمَ ابْنِ عَفَّانَ، فَإِنَّهُمَا إِنْ تَهْلِكْ مَاشِيَتُهُمَا يَرْجِعَا إِلَى نَخْلٍ وَزَرْعٍ، وَإِنَّ رَبَّ الصُّرَيْمَةِ، وَرَبَّ الغُنَيْمَةِ: إِنْ تَهْلِكْ مَاشِيَتُهُمَا، يَأْتِنِي بِبَنِيهِ ، فَيَقُولُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ؟ أَفَتَارِكُهُمْ أَنَا لاَ أَبَا لَكَ، فَالْمَاءُ وَالكَلَأُ أَيْسَرُ عَلَيَّ مِنَ الذَّهَبِ وَالوَرِقِ، وَايْمُ اللَّهِ إِنَّهُمْ لَيَرَوْنَ أَنِّي قَدْ ظَلَمْتُهُمْ، إِنَّهَا لَبِلاَدُهُمْ فَقَاتَلُوا عَلَيْهَا فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَأَسْلَمُوا عَلَيْهَا فِي الإِسْلاَمِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلاَ المَالُ الَّذِي أَحْمِلُ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ص:72]، مَا حَمَيْتُ عَلَيْهِمْ مِنْ بِلاَدِهِمْ شِبْرًا
کتاب: جہاد کا بیان
باب : اگر کچھ لوگ جو دارالحرب میں مقیم ہیں اسلام لے آئیں اور وہ مال وجائداد منقولہ وغیر منقولہ کے مالک ہیں تو وہ ان ہی کی ہو گی
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہنی نامی اپنے ایک غلام کو ( سرکاری ) چراگاہ کا حاکم بنایا ‘ تو انہیں یہ ہدایت کی ‘ اے ہنی ! مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا ( ان پر ظلم نہ کرنا ) اور مظلوم کی بدعا سے ہر وقت بچتے رہنا ‘ کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے ۔ اور ہاں ابن عوف اورابن عفان اور ان جیسے ( امیر صحابہ ) کے مویشیوں کے بارے میں تجھے ڈرتے رہنا چاہئے ۔ ( یعنی ان کے امیر ہونے کی وجہ سے دوسرے غریبوں کے مویشیوں پر چراگاہ میں انہیں مقدم نہ رکھنا ) کیونکہ اگر ان کے مویشی ہلاک بھی ہو جائیں گے تو یہ رؤسا اپنے کھجور کے باغات اور کھیتوں سے اپنی معاش حاصل کر سکتے ہیں ۔ لیکن گنے چنے اونٹوں اورگنی چنی بکریوں کا مالک ( غریب ) کہ اگر اس کے مویشی ہلاک ہو گئے ‘ تو وہ اپنے بچوں کو لے کر میرے پاس آئے گا ‘ اور فریاد کرے گا یا امیر المؤمنین ! یا امیرالمؤمنین ! ( ان کو پالنا تیرا باپ نہ ہو ) تو کیا میں انہیں چھو ڑ دوں گا ؟ اس لئے ( پہلے ہی سے ) ان کیلئے چارے اورپانی کا انتظام کر دینا میرے لئے اس سے زیادہ آسان ہے کہ میں ان کیلئے سونے چاندی کا انتظام کروں اور خدا کی قسم ! وہ ( اہل مدینہ ) یہ سمجھتے ہوں گے کہ میں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ یہ زمینیں انہیں کی ہیں ۔ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں اس کے لئے لڑائیاں لڑیں ہیں اور اسلام لانے کے بعد بھی ان کی ملکیت کو بحال رکھا گیا ہے ۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ اموال ( گھوڑے وغیرہ ) نہ ہوتے جن پر جہاد میں لوگوں کو سوار کرتا ہوں تو ان کے علاقوں میں ایک بالشت زمین کو بھی میں چراگاہ نہ بناتا ۔
تشریح :
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہر دو مالدار تھے‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ ان کے تمول سے مرعوب ہو کر ان کے جانوروں کو مقدم نہ کیا جائے بلکہ غریبوں کے جانوروں کا حق پہلے ہے۔ اگر غریبوں کے جانور بھوکے مر گئے تو بیت المال سے ان کو نقد وظیفہ دینا پڑے گا۔
آخر حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جو قول مروی ہے اسی سے ترجمہ باب نکلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین کی نسبت فرمایا کہ اسلام کی حالت میں بھی ان ہی کی رہی‘ تو معلوم ہوا کہ کافر کی جائیداد غیر منقولہ بھی اسلام لانے کے بعد اسی کی ملک میں رہتی ہے گو وہ کافر دارالحرب میں رہے۔ (وحیدی)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہر دو مالدار تھے‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ ان کے تمول سے مرعوب ہو کر ان کے جانوروں کو مقدم نہ کیا جائے بلکہ غریبوں کے جانوروں کا حق پہلے ہے۔ اگر غریبوں کے جانور بھوکے مر گئے تو بیت المال سے ان کو نقد وظیفہ دینا پڑے گا۔
آخر حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جو قول مروی ہے اسی سے ترجمہ باب نکلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین کی نسبت فرمایا کہ اسلام کی حالت میں بھی ان ہی کی رہی‘ تو معلوم ہوا کہ کافر کی جائیداد غیر منقولہ بھی اسلام لانے کے بعد اسی کی ملک میں رہتی ہے گو وہ کافر دارالحرب میں رہے۔ (وحیدی)