‌صحيح البخاري - حدیث 3058

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ إِذَا أَسْلَمَ قَوْمٌ فِي دَارِ الحَرْبِ، وَلَهُمْ مَالٌ وَأَرَضُونَ، فَهِيَ لَهُمْ صحيح حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا فِي حَجَّتِهِ؟ قَالَ: «وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مَنْزِلًا؟»، ثُمَّ قَالَ: «نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ المُحَصَّبِ، حَيْثُ قَاسَمَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الكُفْرِ»، وَذَلِكَ أَنَّ بَنِي كِنَانَةَ حَالَفَتْ قُرَيْشًا عَلَى بَنِي هَاشِمٍ، أَنْ لاَ يُبَايِعُوهُمْ، وَلاَ يُؤْوُوهُمْ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَالخَيْفُ: الوَادِي

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3058

کتاب: جہاد کا بیان باب : اگر کچھ لوگ جو دارالحرب میں مقیم ہیں اسلام لے آئیں اور وہ مال وجائداد منقولہ وغیر منقولہ کے مالک ہیں تو وہ ان ہی کی ہو گی ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی انہیں زہری نے ‘ انہیں علی بن حسین نے ‘ انہیں عمرو بن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اور ان سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! کل آپ ( مکہ میں ) کہا ں قیام فرمائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اجی ! عقیل رضی اللہ عنہ نے ہمارے لئے کوئی گھر چھوڑا ہی کب ہے ۔ پھر فرمایا کہ کل ہمارا قیام حنیف بن کنانہ کے مقام محصب میں ہو گا ‘ جہاں پر قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی ۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ بنی کنانہ اور قریش نے ( یہیں پر ) بنی ہاشم کے خلاف اس بات کی قسمیں کھائی تھیں کہ ان سے خریدوفروخت کی جائے اور نہ انہیں اپنے گھروں میں آنے دیں ۔ زہری نے کہا کہ خیف وادی کو کہتے ہیں ۔
تشریح : ہوا یہ تھا کہ ابو طالب عبدالمطلب کے بڑے بیٹے تھے۔ ان کی وفات کے بعد جاہلیت کی رسم کے موافق کل ملک املاک پر ابو طالب نے قبضہ کر لیا۔ جب ابو طالب کا انتقال ہوا تو ان کے انتقال کے کچھ دن بعد آنحضرتﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ تو مدینہ منورہ ہجرت کر آئے‘ عقیل اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے‘ وہ مکہ میں رہے۔ انہوں نے تمام جائداد اور مکانات بیچ کر اس کا روپیہ خوب اڑایا۔ اس حدیث سے باب کا مطلب امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح نکالا کہ آنحضرتﷺ نے مکہ فتح ہونے کے بعد بھی ان مکانوں اور جائداد کی بیع قائم رکھی اور عقیل کی ملکیت تسلیم کر لی‘ تو جب عقیل کے تصرفات اسلام سے پہلے نافذ ہوئے تو اسلام کے بعد بطریق اولیٰ نافذ رہیں گے۔ وقال القرطبی یحتمل ان یکون مراد البخاری ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم من علی اہل مکۃ باموالہم ودورہم من قبل ان یسلموا (فتح) یعنی شاید امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہو کہ رسول کریمﷺ نے مکہ والوں پر ان کے اسلام سے پہلے ہی یہ احسان فرما دیا تھا کہ ان کے مال اور گھر ہر حالت میں ان کی ہی ملکیت تسلیم کر لئے‘ اس طرح عقیل رضی اللہ عنہ کے لئے اپنے گھر سب پہلے ہی بخش دئیے تھے۔ (ﷺ ہوا یہ تھا کہ ابو طالب عبدالمطلب کے بڑے بیٹے تھے۔ ان کی وفات کے بعد جاہلیت کی رسم کے موافق کل ملک املاک پر ابو طالب نے قبضہ کر لیا۔ جب ابو طالب کا انتقال ہوا تو ان کے انتقال کے کچھ دن بعد آنحضرتﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ تو مدینہ منورہ ہجرت کر آئے‘ عقیل اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے‘ وہ مکہ میں رہے۔ انہوں نے تمام جائداد اور مکانات بیچ کر اس کا روپیہ خوب اڑایا۔ اس حدیث سے باب کا مطلب امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح نکالا کہ آنحضرتﷺ نے مکہ فتح ہونے کے بعد بھی ان مکانوں اور جائداد کی بیع قائم رکھی اور عقیل کی ملکیت تسلیم کر لی‘ تو جب عقیل کے تصرفات اسلام سے پہلے نافذ ہوئے تو اسلام کے بعد بطریق اولیٰ نافذ رہیں گے۔ وقال القرطبی یحتمل ان یکون مراد البخاری ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم من علی اہل مکۃ باموالہم ودورہم من قبل ان یسلموا (فتح) یعنی شاید امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہو کہ رسول کریمﷺ نے مکہ والوں پر ان کے اسلام سے پہلے ہی یہ احسان فرما دیا تھا کہ ان کے مال اور گھر ہر حالت میں ان کی ہی ملکیت تسلیم کر لئے‘ اس طرح عقیل رضی اللہ عنہ کے لئے اپنے گھر سب پہلے ہی بخش دئیے تھے۔ (ﷺ