‌صحيح البخاري - حدیث 305

كِتَابُ الحَيْض بَابٌ: تَقْضِي الحَائِضُ المَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ القَاسِمِ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ نَذْكُرُ إِلَّا الحَجَّ، فَلَمَّا جِئْنَا سَرِفَ طَمِثْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: «مَا يُبْكِيكِ؟» قُلْتُ: لَوَدِدْتُ وَاللَّهِ أَنِّي لَمْ أَحُجَّ العَامَ، قَالَ: «لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 305

کتاب: حیض کے احکام و مسائل باب: حائضہ حج میں طواف کے علاوہ ارکان ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، انھوں نے عبدالرحمن بن قاسم سے، انھوں نے قاسم بن محمد سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے اس طرح نکلے کہ ہماری زبانوں پر حج کے علاوہ اور کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ جب ہم مقام سرف پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ ( اس غم سے ) میں رو رہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو؟ میں نے کہا کاش! میں اس سال حج کا ارادہ ہی نہ کرتی۔ آپ نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو۔
تشریح : سیدالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: اعلم ان البخاری عقد بابا فی صحیحہ یدل علی انہ قائل بجواز قراءۃ القرآن للجنب والحائض۔ ( تحفۃ الاحوذی،جلد1،ص: 124 ) حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قرات سے روکا گیا ہوگو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11،ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے۔ درجہ حسن تک کی روایات توموجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قرات قرآن کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قرات قرآن کو جائز رکھا ہے۔ ائمہ فقہاءمیں سے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دوروایتیں ہیں۔ ایک میں جنبی اور حائضہ ہردو کوقرات کی اجازت ہے اور طبری،ابن منذر اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔ حضرت مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ تمسک البخاری ومن قال بالجواز غیرہ کالطبری وابن المنذر وداود بعموم حدیث کان یذکر اللہ علی کل احیانہ لان الذکر اعم ان یکون بالقرآن اوبغیرہ الخ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 124 ) یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث یذکراللہ علی کل احیانہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرحال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے ) سے استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ذکرمیں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔ مگرجمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کوقرات قرآن جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیاجائے۔ صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ “ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاءاسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہوکر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہوگا۔ ( ایضاح البخاری،ج2،ص: 32 ) ( امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں ) سیدالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: اعلم ان البخاری عقد بابا فی صحیحہ یدل علی انہ قائل بجواز قراءۃ القرآن للجنب والحائض۔ ( تحفۃ الاحوذی،جلد1،ص: 124 ) حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قرات سے روکا گیا ہوگو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11،ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے۔ درجہ حسن تک کی روایات توموجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قرات قرآن کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قرات قرآن کو جائز رکھا ہے۔ ائمہ فقہاءمیں سے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دوروایتیں ہیں۔ ایک میں جنبی اور حائضہ ہردو کوقرات کی اجازت ہے اور طبری،ابن منذر اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔ حضرت مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ تمسک البخاری ومن قال بالجواز غیرہ کالطبری وابن المنذر وداود بعموم حدیث کان یذکر اللہ علی کل احیانہ لان الذکر اعم ان یکون بالقرآن اوبغیرہ الخ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 124 ) یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث یذکراللہ علی کل احیانہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرحال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے ) سے استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ذکرمیں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔ مگرجمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کوقرات قرآن جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیاجائے۔ صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ “ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاءاسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہوکر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہوگا۔ ( ایضاح البخاری،ج2،ص: 32 ) ( امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں )