‌صحيح البخاري - حدیث 3045

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابٌ: هَلْ يَسْتَأْسِرُ الرَّجُلُ وَمَنْ لَمْ يَسْتَأْسِرْ، وَمَنْ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ عِنْدَ القَتْلِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ، وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي زُهْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ رَهْطٍ سَرِيَّةً عَيْنًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ»، فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالهَدَأَةِ، وَهُوَ بَيْنَ عُسْفَانَ وَمَكَّةَ، ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ، يُقَالُ لَهُمْ بَنُو لَحْيَانَ، فَنَفَرُوا لَهُمْ قَرِيبًا مِنْ مِائَتَيْ رَجُلٍ كُلُّهُمْ رَامٍ، فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمْ تَمْرًا تَزَوَّدُوهُ مِنَ المَدِينَةِ، فَقَالُوا: هَذَا تَمْرُ يَثْرِبَ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ، فَلَمَّا رَآهُمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى فَدْفَدٍ وَأَحَاطَ بِهِمُ القَوْمُ، فَقَالُوا لَهُمْ: انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَيْدِيكُمْ [ص:68]، وَلَكُمُ العَهْدُ وَالمِيثَاقُ، وَلاَ نَقْتُلُ مِنْكُمْ أَحَدًا، قَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِيرُ السَّرِيَّةِ: أَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ لاَ أَنْزِلُ اليَوْمَ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ، اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ، فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةٍ، فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ بِالعَهْدِ وَالمِيثَاقِ، مِنْهُمْ خُبَيْبٌ الأَنْصَارِيُّ، وَابْنُ دَثِنَةَ، وَرَجُلٌ آخَرُ، فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَأَوْثَقُوهُمْ، فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ: هَذَا أَوَّلُ الغَدْرِ، وَاللَّهِ لاَ أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي فِي هَؤُلاَءِ لَأُسْوَةً يُرِيدُ القَتْلَى، فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ عَلَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَأَبَى فَقَتَلُوهُ، فَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبٍ، وَابْنِ دَثِنَةَ حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، فَابْتَاعَ خُبَيْبًا بَنُو الحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ، فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا، فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِيَاضٍ، أَنَّ بِنْتَ الحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهُمْ حِينَ اجْتَمَعُوا اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسَى يَسْتَحِدُّ بِهَا، فَأَعَارَتْهُ، فَأَخَذَ ابْنًا لِي وَأَنَا غَافِلَةٌ حِينَ أَتَاهُ قَالَتْ: فَوَجَدْتُهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالمُوسَى بِيَدِهِ، فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فِي وَجْهِي، فَقَالَ: تَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ؟ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ فِي يَدِهِ، وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الحَدِيدِ، وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرٍ، وَكَانَتْ تَقُولُ: إِنَّهُ لَرِزْقٌ مِنَ اللَّهِ رَزَقَهُ خُبَيْبًا، فَلَمَّا خَرَجُوا مِنَ الحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الحِلِّ، قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ: ذَرُونِي أَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، فَتَرَكُوهُ، فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: لَوْلاَ أَنْ تَظُنُّوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَطَوَّلْتُهَا، اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا، [البحر الطويل] مَا أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا ... عَلَى أَيِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ ... يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ فَقَتَلَهُ ابْنُ الحَارِثِ فَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ لِكُلِّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا، فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ يَوْمَ أُصِيبَ، «فَأَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ خَبَرَهُمْ، وَمَا أُصِيبُوا، وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ كُفَّارِ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ، لِيُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ، وَكَانَ قَدْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ، فَبُعِثَ عَلَى عَاصِمٍ مِثْلُ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتْهُ مِنْ رَسُولِهِمْ، فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى أَنْ يَقْطَعَ مِنْ لَحْمِهِ شَيْئًا»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3045

کتاب: جہاد کا بیان باب : اپنے تئیں قید کرا دینا اورجو شخص قید نہ کرائے اس کا حکم اور قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنا۔ ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی‘ اس سے زہری نے بیان کیا‘ انہیں عمرو بن سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی‘ وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے دوست‘ انہوں نے کہا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس صحابہ کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لئے بھیجی‘ اس جماعت کا امیر عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا اور جماعت روانہ ہوگئی ۔ جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اورمکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو کسی نے خبر دے دی اوراس قبیلہ کے دو سو تیر اندازوں کی جماعت ان کی تلاش میں نکلی‘ یہ سب صحابہ کے نشانات قدم سے اندازہ لگاتے ہوئے چلتے چلتے آخر ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ نے بیٹھ کر کھجوریں کھائی تھیں‘ جو وہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے ۔ پیچھا کرنے والوں نے کہا کہ یہ ( گٹھلیاں ) تو یثرب ( مدینہ ) کی ( کھجوروں کی ) ہیں اور پھر قدم کے نشانوں سے اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے ۔ آخر عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب انہیں دیکھا توا ن سب نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی‘ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے اتر آؤ‘ تم سے ہمارا عہد وپیمان ہے ۔ ہم کسی شخص کو بھی قتل نہیں کریں گے ۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ مہم کے امیر نے کہا کہ میں تو آج کسی صورت میں بھی ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا ۔ اے اللہ ! ہماری حالت سے اپنے نبی کو مطلع کر دے ۔ اس پر ان کافروں نے تیر برسانے شروع کر دئے اور عاصم رضی اللہ عنہ اور سات دوسرے صحابہ کو شہید کرڈالا باقی تین صحابی ان کے عہد و پیمان پر اتر آئے ، یہ خبیب انصاری رضی اللہ عنہ ابن دثنہ رضی اللہ عنہ اور ایک تیسرے صحابی ( عبداللہ بن طارق بلوی رضی اللہ عنہ ) تھے ۔ جب یہ صحابی ان کے قابو میں آ گئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کے تانت اتار کران کو ان سے باندھ لیا‘ حضرت عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ! یہ تمہاری پہلی غداری ہے ۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا‘ بلکہ میں تو انہیں حضرت کا اسوہ اختیار کروں گا‘ ان کی مراد شہداء سے تھی ‘ مگر مشرکین انہیں کھنچنے لگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا جب وہ کسی طرح نہ گئے تو ان کو بھی شہید کردیا ۔ اب یہ خبیب اور ابن دثنہ رضوی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر چلے اور ان کو مکہ میں لے جا کر بیچ دیا ۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے ۔ خبیب رضی اللہ عنہ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خرید لیا ، خبیب رضی اللہ عنہ نے ہی بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا ۔ آپ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قید ی بن کر رہے ، ( زہری نے بیان کیا ) کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض خبر دی اور انہیں حارث کی بیٹی ( زینب رضی اللہ عنہ ) نے خبر دی کہ جب ( ان کو قتل کرنے کے لئے ) لوگ آئے تو زینب سے انہوں نے موئے زیر ناف مونڈنے کے لئے استرا مانگا ۔ انہوں نے استرا دے دیا ، ( زینب نے بیان کیا ) پھر انہوں نے میرے ایک بچے کو اپنے پاس بلا لیا‘ جب وہ ان کے پاس گیا تو میں غافل تھی‘ زینب نے بیان کیا کہ پھر جب میں نے اپنے بچے کو ان کی ران پر بیٹھا ہوا دیکھا اوراسترا ان کے ہاتھ میں تھا‘ تو میں اس بری طرح گھبرا گئی کہ خبیب رضی اللہ عنہ بھی میرے چہرے سے سمجھ گئے انہوں نے کہا ‘ تمہیں اس کا خوف ہو گا کہ میں اسے قتل کر ڈالوں گا‘ یقین کرو میں کبھی ایسا نہیں کر سکتا ۔ اللہ کی قسم ! کوئی قیدی میں نے خبیب سے بہتر کبھی نہیں دیکھا ۔ اللہ کی قسم ! میں نے ایک دن دیکھا کہ انگورکا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس میں کھا رہے ہیں ۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا ۔ کہا کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی روزی تھی جو اللہ نے خبیب رضی اللہ عنہ کو بھیجی تھی ۔ پھر جب مشرکین انہیں حرم سے باہر لائے‘ تاکہ حرم کے حدود سے نکل کر انہیں شہید کر دیں توخبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھ لینے دو ۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی ۔ پھرخبیب رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا‘ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں ( قتل سے ) گھبرا رہا ہوں تو میں ان رکعتوں کو اورلمبا کرتا ۔ اے اللہ ! ان ظالموں سے ایک ایک کو ختم کر دے ، ( پھر یہ اشعار پڑھے ) ” جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں‘ تو مجھے کسی قسم کی بھی پرواہ نہیں ہے ۔ خواہ اللہ کے راستے میں مجھے کسی پہلو پر بھی پچھاڑا جائے ، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہے اور اگر وہ چاہے تو اس جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے سکتا ہے جس کی بوٹی بوٹی کر دی گئی ہو ۔ آخر حارث کے بیٹے ( عقبہ ) نے ان کو شہید کردیا ۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ سے ہی ہر اس مسلمان کے لئے جسے قید کر کے قتل کیا جائے ( قتل سے پہلے ) دو رکعتیں مشروع ہوئی ہیں ۔ ادھر حادثہ کے شروع ہی میں حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ ( مہم کے امیر ) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی تھی کہ اے اللہ ! ہماری حالت کی خبر اپنے نبی کو دے دے ) اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو وہ سب حالات بتا دیئے تھے جن سے یہ مہم دوچار ہوئی تھی ۔ کفار قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عاصم شہید کر دیئے گئے تو انہوں نے نے ان کی لاش کے لئے اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہو سکتی ہو ۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار ( عقبہ بن ابی معیط ) کو قتل کیا تھا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کر دیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے ۔ کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عاصم شہید کر دیئے گئے تو انہوں نے ان کی لاش کے لئے اپنے آدمی بھیجے تا کہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہو سکتی ہو ۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار ( عقبہ بن ابی معیط ) کو قتل کیا تھا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کردیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے ۔
تشریح : عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ کی والدہ جمیلہ عاصم بن ثابت کی بیٹی تھیں۔ بعضوں نے کہا یہ عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ کے ماموں تھے اور جمیلہ ان کی بہن تھیں۔ خیر ان چھ آدمیوں کو آپﷺ نے عضل اور قارہ والوں کی درخواست پر بھیجا تھا۔ وہ جنگ احد کے بعد آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو کر دیجئے جو ہم کو دین کی تعلیم دیں۔ آپ نے مرثد بن ابی مرثد اور خالد بن بکیر اور خبیب بن عدی اور زید بن دثنہ اور عبداللہ بن طارق کو ان کے ساتھ کر دیا‘ راستے میں بنو لحیان کے لوگوں نے ان پر حملہ کیا‘ اور دغا سے مار ڈالا۔ (وحیدی) عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ کی والدہ جمیلہ عاصم بن ثابت کی بیٹی تھیں۔ بعضوں نے کہا یہ عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ کے ماموں تھے اور جمیلہ ان کی بہن تھیں۔ خیر ان چھ آدمیوں کو آپﷺ نے عضل اور قارہ والوں کی درخواست پر بھیجا تھا۔ وہ جنگ احد کے بعد آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو کر دیجئے جو ہم کو دین کی تعلیم دیں۔ آپ نے مرثد بن ابی مرثد اور خالد بن بکیر اور خبیب بن عدی اور زید بن دثنہ اور عبداللہ بن طارق کو ان کے ساتھ کر دیا‘ راستے میں بنو لحیان کے لوگوں نے ان پر حملہ کیا‘ اور دغا سے مار ڈالا۔ (وحیدی)