كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَنْ رَأَى العَدُوَّ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: يَا صَبَاحَاهْ، حَتَّى يُسْمِعَ النَّاسَ صحيح حَدَّثَنَا المَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ قَالَ: خَرَجْتُ مِنَ المَدِينَةِ ذَاهِبًا نَحْوَ الغَابَةِ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِثَنِيَّةِ الغَابَةِ، لَقِيَنِي غُلاَمٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قُلْتُ: وَيْحَكَ مَا بِكَ؟ قَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: مَنْ أَخَذَهَا؟ قَالَ: غَطَفَانُ، وَفَزَارَةُ فَصَرَخْتُ ثَلاَثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا: يَا صَبَاحَاهْ يَا صَبَاحَاهْ، ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتَّى أَلْقَاهُمْ، وَقَدْ أَخَذُوهَا، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ، وَأَقُولُ: أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ ... وَاليَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ فَاسْتَنْقَذْتُهَا مِنْهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا، فَأَقْبَلْتُ بِهَا أَسُوقُهَا، فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:67]، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ القَوْمَ عِطَاشٌ، وَإِنِّي أَعْجَلْتُهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا سِقْيَهُمْ، فَابْعَثْ فِي إِثْرِهِمْ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الأَكْوَعِ: مَلَكْتَ، فَأَسْجِحْ إِنَّ القَوْمَ يُقْرَوْنَ فِي قَوْمِهِمْ
کتاب: جہاد کا بیان
باب : دشمن کو دیکھ کر بلند آواز سے یا صبا حاہ پکارنا تاکہ لوگ سن لیں اور مدد کو آئیں ۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا‘ کہا ہم کو یزید بن ابی عبید نے خبردی‘ انہیں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں مدینہ منورہ سے غابہ ( شام کے راستے میں ایک مقام ) جارہا تھا‘ غابہ کی پہاڑی پر ابھی میں پہنچا تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک غلام ( رباح ) مجھے ملا ۔ میں نے کہا ‘ کیا بات پیش آئی ؟ کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو دہیل اونٹنیاں ( دودھ دینے والیاں ) چھین لی گئیں ہیں ۔ میں نے پوچھا کس نے چھینا ہے ؟ بتایا کہ قبیلہ غطفان اور فزارہ کے لوگوں نے ۔ پھر میں نے تین مرتبہ بہت زور سے چیخ کر ” یا صباحاہ‘یا صباحاہ “ کہا ۔ اتنی زور سے کہ مدینہ کے چاروں طرف میری آواز پہنچ گئی ۔ اس کے بعد میں بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھا‘ اور ڈاکوؤں کو جا لیا‘ اونٹنیاں ان کے ساتھ تھیں‘ میں نے ان پر تیر برسانا شروع کر دیا‘ اور کہنے لگا‘ میں اکوع کا بیٹا سلمہ ہوں اور آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے ۔ آخر اونٹنیاں میں نے ان سے چھڑا لیں‘ ابھی وہ لوگ پانی نہ پینے پائے تھے اور انہیں ہانک کر واپس لا رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھ کو مل گئے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ڈاکو پیاسے ہیں اور میں نے مارے تیروں کے پانی بھی نہیں پینے دیا ۔ اس لئے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیج دیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ اے ابن الاکوع ! تو ان پر غالب ہو چکا اب جانے دے‘ درگزر کر وہ تو اپنی قوم میں پہنچ گئے جہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے ۔
تشریح :
: لفظ رضع راضع کی جمع ہے بمعنی پاجی‘ کمینہ اور بدمعاش بعض نے کہا بخیل جو بخل کی وجہ سے اپنے جانور کا دودھ منہ سے چوستا ہےدوہتا نہیں کہ کہیں دوہنے کی آواز سن کر دوسرے لوگ نہ آجائیں اور ان کو دودھ دینا پڑے‘ ایک بخیل کا ایسا ہی قصہ مشہور ہے۔ بعضوں نے کہا ترجمہ یوں ہے آج معلوم ہو جائے گا کس نے شریف ماں کا دودھ پیا ہے اور کس نے کمینی کا۔
عرب کا قاعدہ ہے کہ کوئی آفت آتی ہے تو زور سے پکارتے ہیں‘ یا صبا حاہ! یعنی یہ صبح مصیبت کی ہے‘ جلد آؤ اور ہماری مدد کرو۔ غابہ ایک مقام کا نام ہے مدینہ سے کئی میل پر شام کی طرف۔ وہاں درخت بہت تھے‘ وہیں کے جھاؤ سے منبر نبوی بنایا گیا تھا۔ غطفان اور فزارہ دو قبیلوں کے نام ہیں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ وہ ڈاکو پانی پینے کو ٹھہرے ہوں گے‘ فوج کے لوگ ان کو پالیں گے اور پکڑ لائیں گے۔ ابن سعد کی روایت میں ہے کہ میرے ساتھ سو آدمی دیجئے تو میں ان کو معہ ان کے اسباب کے گرفتار کرکے لاتا ہوں۔ آپﷺ نے جو جواب دیا وہ آپ کا معجزہ تھا۔ واقعی وہ ڈاکو اپنے قبیلہ غطفان میں پہنچ چکے تھے۔
: لفظ رضع راضع کی جمع ہے بمعنی پاجی‘ کمینہ اور بدمعاش بعض نے کہا بخیل جو بخل کی وجہ سے اپنے جانور کا دودھ منہ سے چوستا ہےدوہتا نہیں کہ کہیں دوہنے کی آواز سن کر دوسرے لوگ نہ آجائیں اور ان کو دودھ دینا پڑے‘ ایک بخیل کا ایسا ہی قصہ مشہور ہے۔ بعضوں نے کہا ترجمہ یوں ہے آج معلوم ہو جائے گا کس نے شریف ماں کا دودھ پیا ہے اور کس نے کمینی کا۔
عرب کا قاعدہ ہے کہ کوئی آفت آتی ہے تو زور سے پکارتے ہیں‘ یا صبا حاہ! یعنی یہ صبح مصیبت کی ہے‘ جلد آؤ اور ہماری مدد کرو۔ غابہ ایک مقام کا نام ہے مدینہ سے کئی میل پر شام کی طرف۔ وہاں درخت بہت تھے‘ وہیں کے جھاؤ سے منبر نبوی بنایا گیا تھا۔ غطفان اور فزارہ دو قبیلوں کے نام ہیں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ وہ ڈاکو پانی پینے کو ٹھہرے ہوں گے‘ فوج کے لوگ ان کو پالیں گے اور پکڑ لائیں گے۔ ابن سعد کی روایت میں ہے کہ میرے ساتھ سو آدمی دیجئے تو میں ان کو معہ ان کے اسباب کے گرفتار کرکے لاتا ہوں۔ آپﷺ نے جو جواب دیا وہ آپ کا معجزہ تھا۔ واقعی وہ ڈاکو اپنے قبیلہ غطفان میں پہنچ چکے تھے۔