‌صحيح البخاري - حدیث 3040

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ إِذَا فَزِعُوا بِاللَّيْلِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، قَالَ: وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ المَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، قَالَ: فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ، وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ، فَقَالَ: «لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا»، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَجَدْتُهُ بَحْرًا» يَعْنِي الفَرَسَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3040

کتاب: جہاد کا بیان باب : اگر رات کے وقت دشمن کا ڈر پیدا ہو (تو چاہئے کہ حاکم اس کی خبر لے) ہم سے قتیبہ نے بن سعید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حماد نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین‘ سب سے زیادہ سخی اورسب سے زیادہ بہادر تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رات کے وقت اہل مدینہ گھبرا گئے تھے‘ کیونکہ ایک آواز سنائی دی تھی ۔ پھر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر جس کی پیٹھ ننگی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے تنہا اطراف مدینہ میں سب سے آگے تشریف لے گئے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ کر صحابہ رضی اللہ عنہ سے ملے تو تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ‘ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ میں نے تو اسے دریا کی طرح پایا ۔ ( تیز دوڑنے میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ گھوڑے کی طرف تھا ۔
تشریح : بعض دشمن قبائل کی طرف سے مدینہ منورہ پر اچانک شب خونی کا خطرہ تھا‘ اور ایک دفعہ اندھیری رات میں کسی نامعلوم آواز سے ایسا شبہ ہوگیا تھا جس کی تحقیق کے لئے سب سے پہلے خود رسول کریمﷺ نکلے اور آپ مدینہ کے چاروں طرف دور دور تک پتہ لے کر واپس لوٹے اور مسلمانوں کی تسلی دلائی کہ کوئی خطرہ نہیں ہے‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔ بعض دشمن قبائل کی طرف سے مدینہ منورہ پر اچانک شب خونی کا خطرہ تھا‘ اور ایک دفعہ اندھیری رات میں کسی نامعلوم آواز سے ایسا شبہ ہوگیا تھا جس کی تحقیق کے لئے سب سے پہلے خود رسول کریمﷺ نکلے اور آپ مدینہ کے چاروں طرف دور دور تک پتہ لے کر واپس لوٹے اور مسلمانوں کی تسلی دلائی کہ کوئی خطرہ نہیں ہے‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔