‌صحيح البخاري - حدیث 3039

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِي الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يُحَدِّثُ قَالَ: جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ، وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ، فَقَالَ: «إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ فَلاَ تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ، هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا القَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ، فَلاَ تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ»، فَهَزَمُوهُمْ، قَالَ: فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ، قَدْ بَدَتْ خَلاَخِلُهُنَّ وَأَسْوُقُهُنَّ، رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ: الغَنِيمَةَ أَيْ قَوْمِ الغَنِيمَةَ، ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ [ص:66] فَمَا تَنْتَظِرُونَ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ: أَنَسِيتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ، فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الغَنِيمَةِ، فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ، فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أَصَابُوا مِنَ المُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً، سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلًا، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: أَفِي القَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجِيبُوهُ، ثُمَّ قَالَ: أَفِي القَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ؟ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: أَفِي القَوْمِ ابْنُ الخَطَّابِ؟ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَمَّا هَؤُلاَءِ، فَقَدْ قُتِلُوا، فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ، فَقَالَ: كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لَأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ، وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوءُكَ، قَالَ: يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، وَالحَرْبُ سِجَالٌ، إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِي القَوْمِ مُثْلَةً، لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي، ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِزُ: أُعْلُ هُبَلْ، أُعْلُ هُبَلْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ»، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ؟ قَالَ: قُولُوا: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ ، قَالَ: إِنَّ لَنَا العُزَّى وَلاَ عُزَّى لَكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ؟»، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ؟ قَالَ: «قُولُوا اللَّهُ مَوْلاَنَا، وَلاَ مَوْلَى لَكُمْ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3039

کتاب: جہاد کا بیان باب : جنگ میں جھگڑ اور اختلاف کرنا مکروہ ہے اور جو سردار لشکر کی نافرمانی کرے‘اس کی سزا کا بیان ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو اسحاق نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے موقع پر ( تیر اندازوں کے ) پچاس آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاکید کر دی تھی کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ پرندے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں ۔ پھر بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا‘ جب تک میں تم لوگوں کو کہلا نہ بھیجوں ۔ اسی طرح اگر تم یہ دیکھو کہ کفار کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں پامال کر دیا ہے پھر بھی یہاں سے نہ ٹلنا‘ جب میں تمہیں خود بلا نہ بھیجوں ۔ پھر اسلامی لشکر نے کفار کو شکست دے دی ۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا‘ کہ اللہ کی قسم ! میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہی تھیں ۔ ان کے پازیب اور پنڈلیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔ اور وہ اپنے کپڑوں کو اٹھائے ہوئے تھیں ۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا‘ کہ غنیمت لوٹو‘اے قوم ! غنیمت تمہارے سامنے ہے ۔ تمہارے ساتھی غالب آگئے ہیں ۔ اب ڈر کس بات کا ہے ۔ اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ کیا جو ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی‘ تم اسے بھول گئے ؟ لیکن وہ لوگ اسی پر اڑے رہے کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ غنیمت جمع کرنے میں شریک رہیں گے ۔ جب یہ لوگ ( اکثریت ) اپنی جگہ چھوڑ چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیئے‘ اور ( مسلمانوں کو ) شکست زدہ پا کر بھاگتے ہوئے آئے‘ یہی وہ گھڑی تھی ( جس کا ذکر سورۃ آل عمران میں ہے کہ ) ” جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم کو پیچھے کھڑے ہوئے بلا رہے تھے “ ۔ اس سے یہی مراد ہے ۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابہ کے سوا اور کوئی بھی باقی نہ رہ گیا تھا ۔ آخر ہمارے ستر آدمی شہید ہو گئے ۔ بدر کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ مشرکین کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا‘ ستر ان میں سے قیدی تھے اور ستر مقتول‘ ( جب جنگ ختم ہو گئی تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر ) ابو سفیان نے کہا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ موجود ہیں ؟ تین مرتبہ انہوں نے یہی پوچھا ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے منع فرما دیا تھا ۔ پھر انہوں نے پوچھا‘ کیا ابن ابی قحافہ ( ابو بکر رضی اللہ عنہ ) اپنی قوم میں موجود ہیں ؟ یہ سوال بھی تین مرتبہ کیا‘ پھر پوچھا ابن خطاب ( عمر رضی اللہ عنہ ) اپنی قوم میں موجود ہیں ؟ یہ بھی تین مرتبہ پوچھا‘ پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ کر کہنے لگے کہ یہ تینوں قتل ہو چکے ہیں اس پر عمر رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا اور آپ بول پڑے کہ اے خدا کے دشمن ! خدا گواہ ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے جن کے تو نے ابھی نام لئے تھے وہ سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے ۔ ابو سفیان نے کہا اچھا ! آج کا دن بدر کا بدلہ ہے ۔ اور لڑائی بھی ایک ڈول کی طرح ہے ( کبھی ادھر کبھی ادھر ) تم لوگوں کو اپنی قوم کے بعض لوگ مثلہ کئے ہوئے ملیں گے ۔ میں نے اس طرح کا کوئی حکم ( اپنے آدمیوں کو ) نہیں دیا تھا‘ لیکن مجھے ان کا یہ عمل برا بھی نہیں معلوم ہوا ۔ اس کے بعد وہ فخر یہ رجز پڑھنے لگا‘ ہبل ( بت کا نام ) بلند رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اورسب سے بڑا بزرگ ہے ۔ ابو سفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ ( بت ) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں ، آپ نے فرمایا ، جواب کیوں نہیں دیتے ، صحابہ نے عرض کیا ، یارسول اللہ ! اس کا جواب کیا دیا جائے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں ۔
تشریح : جنگ احد اسلامی تاریخ کا ایک بڑا حادثہ ہے جس میں مسلمانوں کو جانی اور مالی کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ رسول کریمﷺ نے حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کے ساتھیوں کو سخت تاکید کی تھی کہ ہم بھاگ جائیں یا مارے جائیں اور پرندے ہمارا گوشت اچک اچک کر کھا رہے ہوں‘ تم لوگ یہ درہ ہمارا حکم آئے بغیر ہرگز نہ چھوڑنا‘ یہ درہ بہت ہی نازک مقام تھا۔ وہاں سے مسلمانوں پر عقب سے حملہ ہوسکتا تھا‘ اگر حضرت عبداللہ بن جبیررضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے جب میدان مسلمانوں کے ہاتھ دیکھا تو وہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے درہ چھوڑ کر بھاگ نکلے‘ اور فرمان رسول اللہﷺ اپنی رائے قیاس کے آگے انہوں نے بالکل فراموش کردیا‘ نتیجہ یہ کہ کافروں کے اس اچانک حملہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے‘ اور بیشتر مسلمان مجاہدین نے راہ فرار اختیار کی‘ رسول کریمﷺ کے ساتھ صرف ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق‘ علی مرتضیٰ ‘ عبدالرحمن بن عوف‘ سعد بن ابی وقاص‘ طلحہ بن عبید اللہ‘ زبیر بن عوام‘ ابوعبیدہ بن جراح‘ خباب بن منذر‘ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہم باقی تھے۔ ستر اکابر صحابہ شہید ہوگئے۔ جن میں حضرت امیر حمزہؓ کو سید الشہداء کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوسفیانؓ جو اس وقت کفار قریش کے لشکر کی کمان کر رہے تھے‘ جنگ کے خاتمہ پر انہوں نے فخریہ مسلمانوں کو للکارا اور یہ بھی کہا کہ مسلمانو! تمہارے کچھ شہداء مثلہ کئے ملیں گے‘ یعنی ان کے ناک کان کاٹ کر ان کی صورتوں کو مسخ کردیا گیا ہے۔ میں نے ایسا حکم نہیں دیا‘ مگر میں اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔ مشرکوں نے سب سے زیادہ گستاخی حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی تھی۔ وحشی نامی ایک غلام نے ان پر چھپ کر وار کیا‘ وہ گر گئے۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے باپ اور بھائی کا مارا جانا یاد کرکے ان کی نعش کا مثلہ کردیا اور ان کا کلیجہ نکال کر چبایا اور ان کی نعش پر کھڑی ہوئی اور فخریہ شعر پڑھے۔ ہبل ایک بت کا نام تھا جو کعبہ کے بتوں میں بڑا مانا جاتا تھا۔ گویا ابوسفیان نے فتح جنگ پر ہبل کی جے کا نعرہ بلند کیا کہ آج تیرا غلبہ ہوا اور اللہ والے مغلوب ہوئے۔ اس کے جواب میں آنحضرتﷺ نے حقیقت افروز نعرہ اعلی و اجل کے لفظوں میں بلند فرمایا‘ جو اس لئے بلند اور برتر ثابت ہوا کہ بعد میں ہبل اور تمام بتوں کا کعبہ سے خاتمہ ہوگیا اور اللہ عزوجل کا نام وہاں ہمیشہ کے لئے بلند ہو رہا ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاریؒ نے باب کا مطلب یوںثابت کیا کہ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ والوں نے اپنے سردار سے اختلاف کیا اور ان کا کہا نہ مانا‘ مورچہ سے ہٹ گئے‘ اس لئے سزا پائی‘ شکست اٹھائی۔ یہیں سے نص صریح کے سامنے رائے قیاس کرنے کی انتہائی مذمت ثابت ہوئی مگر صد افسوس کہ امت کے ایک کثیر طبقہ کو اس رائے و قیاس نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے‘ نیز افتراق امت کا اہم سبب تقلید جامد ہے جس نے مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کردیا۔ دین حق را چار مذہب ساختند رخنہ در دین نبی انداختند جنگ احد اسلامی تاریخ کا ایک بڑا حادثہ ہے جس میں مسلمانوں کو جانی اور مالی کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ رسول کریمﷺ نے حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کے ساتھیوں کو سخت تاکید کی تھی کہ ہم بھاگ جائیں یا مارے جائیں اور پرندے ہمارا گوشت اچک اچک کر کھا رہے ہوں‘ تم لوگ یہ درہ ہمارا حکم آئے بغیر ہرگز نہ چھوڑنا‘ یہ درہ بہت ہی نازک مقام تھا۔ وہاں سے مسلمانوں پر عقب سے حملہ ہوسکتا تھا‘ اگر حضرت عبداللہ بن جبیررضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے جب میدان مسلمانوں کے ہاتھ دیکھا تو وہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے درہ چھوڑ کر بھاگ نکلے‘ اور فرمان رسول اللہﷺ اپنی رائے قیاس کے آگے انہوں نے بالکل فراموش کردیا‘ نتیجہ یہ کہ کافروں کے اس اچانک حملہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے‘ اور بیشتر مسلمان مجاہدین نے راہ فرار اختیار کی‘ رسول کریمﷺ کے ساتھ صرف ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق‘ علی مرتضیٰ ‘ عبدالرحمن بن عوف‘ سعد بن ابی وقاص‘ طلحہ بن عبید اللہ‘ زبیر بن عوام‘ ابوعبیدہ بن جراح‘ خباب بن منذر‘ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہم باقی تھے۔ ستر اکابر صحابہ شہید ہوگئے۔ جن میں حضرت امیر حمزہؓ کو سید الشہداء کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوسفیانؓ جو اس وقت کفار قریش کے لشکر کی کمان کر رہے تھے‘ جنگ کے خاتمہ پر انہوں نے فخریہ مسلمانوں کو للکارا اور یہ بھی کہا کہ مسلمانو! تمہارے کچھ شہداء مثلہ کئے ملیں گے‘ یعنی ان کے ناک کان کاٹ کر ان کی صورتوں کو مسخ کردیا گیا ہے۔ میں نے ایسا حکم نہیں دیا‘ مگر میں اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔ مشرکوں نے سب سے زیادہ گستاخی حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی تھی۔ وحشی نامی ایک غلام نے ان پر چھپ کر وار کیا‘ وہ گر گئے۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے باپ اور بھائی کا مارا جانا یاد کرکے ان کی نعش کا مثلہ کردیا اور ان کا کلیجہ نکال کر چبایا اور ان کی نعش پر کھڑی ہوئی اور فخریہ شعر پڑھے۔ ہبل ایک بت کا نام تھا جو کعبہ کے بتوں میں بڑا مانا جاتا تھا۔ گویا ابوسفیان نے فتح جنگ پر ہبل کی جے کا نعرہ بلند کیا کہ آج تیرا غلبہ ہوا اور اللہ والے مغلوب ہوئے۔ اس کے جواب میں آنحضرتﷺ نے حقیقت افروز نعرہ اعلی و اجل کے لفظوں میں بلند فرمایا‘ جو اس لئے بلند اور برتر ثابت ہوا کہ بعد میں ہبل اور تمام بتوں کا کعبہ سے خاتمہ ہوگیا اور اللہ عزوجل کا نام وہاں ہمیشہ کے لئے بلند ہو رہا ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاریؒ نے باب کا مطلب یوںثابت کیا کہ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ والوں نے اپنے سردار سے اختلاف کیا اور ان کا کہا نہ مانا‘ مورچہ سے ہٹ گئے‘ اس لئے سزا پائی‘ شکست اٹھائی۔ یہیں سے نص صریح کے سامنے رائے قیاس کرنے کی انتہائی مذمت ثابت ہوئی مگر صد افسوس کہ امت کے ایک کثیر طبقہ کو اس رائے و قیاس نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے‘ نیز افتراق امت کا اہم سبب تقلید جامد ہے جس نے مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کردیا۔ دین حق را چار مذہب ساختند رخنہ در دین نبی انداختند