‌صحيح البخاري - حدیث 3033

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الِاحْتِيَالِ وَالحَذَرِ، مَعَ مَنْ يَخْشَى مَعَرَّتَهُ صحيح قَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ، فَحُدِّثَ بِهِ فِي نَخْلٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلَ، طَفِقَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، وَابْنُ صَيَّادٍ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْرَمَةٌ، فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا صَافِ هَذَا مُحَمَّدٌ، فَوَثَبَ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3033

کتاب: جہاد کا بیان باب : اگر کسی سے فساد یا شرارت کا اندیشہ ہو تو اس سے مکر و فریب کر سکتے ہیں لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے بیان کیا‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سالم بن عبداللہ اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد ( یہودی بچے ) کی طرف جا رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی تھے ( ابن صیاد کے عجیب وغریب احوال کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تحقیق کرنا چاہتے تھے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تھی کہ ابن صیاد اس وقت کھجوروں کی آڑ میں موجود ہے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو شاخوں کی آڑ میں چلنے لگے ۔ ( تا کہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے ) ابن صیاد اس وقت ایک چادر اوڑھے ہوئے چپکے چپکے کچھ گنگنا رہا تھا‘ اس کی ماں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور پکاراٹھی کہ اے ابن صیاد ! یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ پہنچے ‘ وہ چونک اٹھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ اس کی خبرنہ کرتی تو وہ کھولتا ۔ ( یعنی اس کی باتوں سے اس کا حال کھل جاتا )
تشریح : ابن صیاد مدینہ میں ایک یہودی بچہ تھا‘ جو کاہن اور نجومیوں کی طرح لوگوں کو بہکایا کرتا اور اپنے آپ کو کبھی نبی اور رسول بھی کہنے لگتا‘ وہ بھی ایک قسم کا دجال ہی تھا‘ کیونکہ دجل و فریب اس کا کام تھا۔ حضرت عمرؓ کی رائے اس کے ختم کردینے کی تھی‘ مگر آنحضرتﷺ جو رحمۃ اللعالمین بن کر تشریف لائے تھے آپ نے بہت سی ملکی وملی مصالح کی بنا پر اسے مناسب نہ سمجھا‘ سچ ہے ﴿ لا اکراہ فی الدین﴾ (البقرۃ: ۲۵۶) دینی معاملات میں کسی پر زبردستی کرنا جائز نہیں ہے۔ راہ ہدایت دکھلا دینا اللہ و رسول ﷺ کا کام ہے اور اس پر چلانا صرف اللہ کا کام ہے۔ ﴿اِنَّكَ لَا تَہْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاءُ﴾(القصص: ۵۶) باب کا مطلب اس سے ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ شاخوں کی آڑ میں چل کر ابن صیاد تک پہنچے تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے‘ ابن صیاد نے آپ کے امیوں کے رسول ہونے کی تصدیق کی‘ جس سے اس نے آپ کی رسالت عامہ سے انکار بھی کیا‘ امی کے معنی ان پڑھ کے ہیں۔ اہل عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا۔ اس کے باوجود وہ ہر فن کے ماہر تھے اور بے پناہ قوت حافظہ رکھتے تھے بلکہ ان کو اپنے امی ہونے پر فخر تھا۔ آنحضرتﷺ بھی ان ہی میں پیدا ہوئے اور اللہ پاک نے آپ کو امی ہونے کے باوجود علوم الاولین والآخرین سے مالا مال فرمایا۔ (ﷺ) ابن صیاد مدینہ میں ایک یہودی بچہ تھا‘ جو کاہن اور نجومیوں کی طرح لوگوں کو بہکایا کرتا اور اپنے آپ کو کبھی نبی اور رسول بھی کہنے لگتا‘ وہ بھی ایک قسم کا دجال ہی تھا‘ کیونکہ دجل و فریب اس کا کام تھا۔ حضرت عمرؓ کی رائے اس کے ختم کردینے کی تھی‘ مگر آنحضرتﷺ جو رحمۃ اللعالمین بن کر تشریف لائے تھے آپ نے بہت سی ملکی وملی مصالح کی بنا پر اسے مناسب نہ سمجھا‘ سچ ہے ﴿ لا اکراہ فی الدین﴾ (البقرۃ: ۲۵۶) دینی معاملات میں کسی پر زبردستی کرنا جائز نہیں ہے۔ راہ ہدایت دکھلا دینا اللہ و رسول ﷺ کا کام ہے اور اس پر چلانا صرف اللہ کا کام ہے۔ ﴿اِنَّكَ لَا تَہْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاءُ﴾(القصص: ۵۶) باب کا مطلب اس سے ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ شاخوں کی آڑ میں چل کر ابن صیاد تک پہنچے تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے‘ ابن صیاد نے آپ کے امیوں کے رسول ہونے کی تصدیق کی‘ جس سے اس نے آپ کی رسالت عامہ سے انکار بھی کیا‘ امی کے معنی ان پڑھ کے ہیں۔ اہل عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا۔ اس کے باوجود وہ ہر فن کے ماہر تھے اور بے پناہ قوت حافظہ رکھتے تھے بلکہ ان کو اپنے امی ہونے پر فخر تھا۔ آنحضرتﷺ بھی ان ہی میں پیدا ہوئے اور اللہ پاک نے آپ کو امی ہونے کے باوجود علوم الاولین والآخرین سے مالا مال فرمایا۔ (ﷺ)