كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ الكَذِبِ فِي الحَرْبِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ»، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ: أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا - يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَدْ عَنَّانَا وَسَأَلَنَا الصَّدَقَةَ، قَالَ: وَأَيْضًا، وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ، قَالَ: فَإِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ فَنَكْرَهُ أَنْ نَدَعَهُ، حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى مَا يَصِيرُ أَمْرُهُ، قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ يُكَلِّمُهُ حَتَّى اسْتَمْكَنَ مِنْهُ فَقَتَلَهُ
کتاب: جہاد کا بیان
باب : جنگ میں جھوٹ بولنا (مصلحت کیلئے) درست ہے
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت اذیتیں پہنچا چکا ہے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسو ل اللہ ! کیا آپ مجھے اجازت بخش دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر محمد بن مسلمہ کعب یہودی کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں تھکا دیا‘ اور ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ مانگتے ہیں ۔ کعب نے کہا کہ قسم اللہ کی ! ابھی کیا ہے ابھی اور مصیبت میں پڑو گے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ ہم نے ان کی پیروی کر لی ہے ۔ اس لئے اس وقت تک اس کا ساتھ چھوڑنا ہم مناسب بھی نہیں سمجھتے جب تک ان کی دعوت کا کوئی انجام ہمارے سامنے نہ آ جائے ۔ غرض محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے اسی طرح باتیں کرتے رہے ۔ آخر موقع پا کر اسے قتل کردیا ۔
تشریح :
: کعب بن اشرف یہودی مدینہ میں مسلمانوں کا سخت ترین دشمن تھا جو روزانہ مسلمانوں کے خلاف نت نئی سازش کرتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ قریش مکہ کو بھی مسلمانوں کے خلاف ابھارتا اور ہمیشہ مسلمانوں کی گھات میں لگا رہتا لیکن اللہ پاک کو اسلام اور مسلمانوں کی بقا منظور تھی اس لئے بایں صورت اس فسادی کو ختم کرکے اسے جہنم رسید کیا گیا‘ سچ ہے ؎
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ابو رافع کی طرح یہ مردود بھی مسلمانوں کی دشمنی پر تلا ہوا تھا۔ رسول کریمﷺ کی ہجو کرتا اور شرک کو دین اسلام سے بہتر بتاتا‘ مشرکوں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے اکساتا‘ ان کی روپے سے مدد کرتا۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اس کے خاتمہ کے لئے اجازت مانگی کہ میں جو مناسب ہوگا آپ کی نسبت شکایت کے کلمے کہوں گا‘ آپﷺ نے اجازت دے دی۔ محمد بن مسلمہؓ کی اس سے یہ غرض تھی کہ کعب کو میرا اعتبار پیدا ہو‘ ورنہ وہ پہلے ہی چونک جاتا اور اپنی حفاظت کا بندوبست کرلیتا۔ بعضوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے کیونکہ محمد بن مسلمہؓ کا کوئی جھوٹ اس میں مذکور نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مجتہد مطلق حضرت امام بخاریؒ نے اپنی عادت کے موافق اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں صاف یہ مذکور ہے کہ انہوں نے چلتے وقت آنحضرتﷺ سے اجازت لے لی تھی کہ میں آپ کی شکایت کروں گا‘ جو چاہوں وہ کہوں گا‘ آپﷺ نے اجازت دی اس میں جھوٹ بولنا بھی آگیا۔ آخر محمد بن مسلمہؓ نے کعب کو باتوں باتوں میں کہا یار تیرے سر سے کیا عمدہ خوشبو آتی ہے۔ وہ مردود کہنے لگا میرے پاس ایک عورت ہے جو سارے عرب میں افضل ہے۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا یار ذرا اپنے بال مجھ کو سونگھنے دو اس نے کہا سونگھو‘ محمد بن مسلمہؓ نے اس بہانے اس کے بال درمیان سر سے پکڑ کر مضبوط تھام لئے اور ساتھیوں کو اشارہ کردیا‘ انہوں نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا سر قلم کردیا‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
: کعب بن اشرف یہودی مدینہ میں مسلمانوں کا سخت ترین دشمن تھا جو روزانہ مسلمانوں کے خلاف نت نئی سازش کرتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ قریش مکہ کو بھی مسلمانوں کے خلاف ابھارتا اور ہمیشہ مسلمانوں کی گھات میں لگا رہتا لیکن اللہ پاک کو اسلام اور مسلمانوں کی بقا منظور تھی اس لئے بایں صورت اس فسادی کو ختم کرکے اسے جہنم رسید کیا گیا‘ سچ ہے ؎
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ابو رافع کی طرح یہ مردود بھی مسلمانوں کی دشمنی پر تلا ہوا تھا۔ رسول کریمﷺ کی ہجو کرتا اور شرک کو دین اسلام سے بہتر بتاتا‘ مشرکوں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے اکساتا‘ ان کی روپے سے مدد کرتا۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اس کے خاتمہ کے لئے اجازت مانگی کہ میں جو مناسب ہوگا آپ کی نسبت شکایت کے کلمے کہوں گا‘ آپﷺ نے اجازت دے دی۔ محمد بن مسلمہؓ کی اس سے یہ غرض تھی کہ کعب کو میرا اعتبار پیدا ہو‘ ورنہ وہ پہلے ہی چونک جاتا اور اپنی حفاظت کا بندوبست کرلیتا۔ بعضوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے کیونکہ محمد بن مسلمہؓ کا کوئی جھوٹ اس میں مذکور نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مجتہد مطلق حضرت امام بخاریؒ نے اپنی عادت کے موافق اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں صاف یہ مذکور ہے کہ انہوں نے چلتے وقت آنحضرتﷺ سے اجازت لے لی تھی کہ میں آپ کی شکایت کروں گا‘ جو چاہوں وہ کہوں گا‘ آپﷺ نے اجازت دی اس میں جھوٹ بولنا بھی آگیا۔ آخر محمد بن مسلمہؓ نے کعب کو باتوں باتوں میں کہا یار تیرے سر سے کیا عمدہ خوشبو آتی ہے۔ وہ مردود کہنے لگا میرے پاس ایک عورت ہے جو سارے عرب میں افضل ہے۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا یار ذرا اپنے بال مجھ کو سونگھنے دو اس نے کہا سونگھو‘ محمد بن مسلمہؓ نے اس بہانے اس کے بال درمیان سر سے پکڑ کر مضبوط تھام لئے اور ساتھیوں کو اشارہ کردیا‘ انہوں نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا سر قلم کردیا‘ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔