‌صحيح البخاري - حدیث 3023

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ قَتْلِ المُشْرِكِ النَّائِمِ صحيح حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا مِنَ الأَنْصَارِ إِلَى أَبِي رَافِعٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيكٍ بَيْتَهُ لَيْلًا فَقَتَلَهُ وَهُوَ نَائِمٌ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3023

کتاب: جہاد کا بیان باب : ( حربی ) مشرک سورہا ہو تو اس کا مارڈالنا درست ہے ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ بن ابی زائدہ نے بیان کیا‘ ان سے اس کے والد نے‘ ان سے ابو اسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے چند آدمیوں کو ابو رافع کے پاس ( اسے قتل کرنے کے لئے ) بھیجا تھا ۔ چنانچہ رات میں عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ اس کے قلعہ میں داخل ہوئے اور اسے سوتے ہوئے قتل کیا ۔
تشریح : عبداللہ رضی اللہ عنہ ابو رافع کی آواز پہچانتے تھے‘ وہاں اندھیرا چھایا ہوا تھا‘ انہوں نے یہ خیال کیا‘ ایسا نہ ہو میں اور کسی کو مار ڈالوں‘ اس لئے انہوں نے ابو رافع کو پکارا اور اس کی آواز پر ضرب لگائی۔ گو ابو رافع کو عبداللہ نے جگا دیا مگر یہ جگانا صرف اس کی جگہ معلوم کرنے کے لئے تھا۔ ابو رافع وہیں پڑا رہا‘ تو گویا سوتا ہی رہا۔ اس لئے باب کی مطابقت حاصل ہوئی۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت امام بخاری نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا‘ جس میں یہ صراحت ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ابو رافع کو سوتے میں مارا۔ یہ ابو رافع (سلام بن ابی الحقیق یہودی) کافروں کو مسلمانوں پر جنگ کے لئے ابھارتا اور ہر وقت فساد کرانے پر آمادہ رہتا تھا۔ اس لئے ملک میں قیام امن کے لئے اس کا ختم کرنا ضروری ہوا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس ظالم کو نیست و نابود کرایا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ ابو رافع کی آواز پہچانتے تھے‘ وہاں اندھیرا چھایا ہوا تھا‘ انہوں نے یہ خیال کیا‘ ایسا نہ ہو میں اور کسی کو مار ڈالوں‘ اس لئے انہوں نے ابو رافع کو پکارا اور اس کی آواز پر ضرب لگائی۔ گو ابو رافع کو عبداللہ نے جگا دیا مگر یہ جگانا صرف اس کی جگہ معلوم کرنے کے لئے تھا۔ ابو رافع وہیں پڑا رہا‘ تو گویا سوتا ہی رہا۔ اس لئے باب کی مطابقت حاصل ہوئی۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت امام بخاری نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا‘ جس میں یہ صراحت ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ابو رافع کو سوتے میں مارا۔ یہ ابو رافع (سلام بن ابی الحقیق یہودی) کافروں کو مسلمانوں پر جنگ کے لئے ابھارتا اور ہر وقت فساد کرانے پر آمادہ رہتا تھا۔ اس لئے ملک میں قیام امن کے لئے اس کا ختم کرنا ضروری ہوا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس ظالم کو نیست و نابود کرایا۔