‌صحيح البخاري - حدیث 3013

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ أَهْلِ الدَّارِ يُبَيَّتُونَ، فَيُصَابُ الوِلْدَانُ وَالذَّرَارِيُّ صحيح وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا الصَّعْبُ فِي الذَّرَارِيِّ كَانَ عَمْرٌو، يُحَدِّثُنَا عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْنَاهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّعْبِ قَالَ: «هُمْ مِنْهُمْ»، وَلَمْ يَقُلْ كَمَا قَالَ عَمْرٌو «هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3013

کتاب: جہاد کا بیان باب : اگر ( لڑنے والے ) کافروں پر رات کو چھاپہ ماریں ( سابقہ سند کے ساتھ ) زہری سے روایت ہے کہ انہوں نے عبیداللہ سے سنا بواسطہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اوران سے صعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا‘ اور صرف ذراری ( بچوں ) کا ذکر کیا‘ سفیان نے کہا کہ عمرو ہم سے حدیث بیان کرتے تھے ۔ ان سے ابن شہاب ‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ، ( سفیان نے ) بیان کیا کہ پھر ہم نے حدیث خودزہری ( ابن شہاب ) سے سنی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ نے خبر دی ، انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اورانہیں صعب رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ( مشرکین کی عورتوں اوربچوں کے متعلق کہ ) وہ بھی انہیں میں سے ہیں ۔ ( زہری کے واسطہ سے ) جس طرح عمرو نے بیان کیا تھا کہ ( ھم من اٰبائھم ) وہ بھی انہیں کے باپ دادوں کی نسل ہیں ۔ زہری نے خود ہم سے ان الفاظ کے ساتھ بیان نہیں کیا ( یعنی ھم من اٰبائھم نہیں کہا بلکہ ھم منھم کہا )
تشریح : اسلام کا حکم یہ ہے کہ لڑائی میں عورتوں بچوں یا بوڑھوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر رات کے وقت مسلمان ان پر حملہ آور ہوں تو ظاہر ہے کہ اندھیرے میں عورتوں بچوں کی تمیز مشکل ہو جائے گی۔ اب اگر یہ قتل ہو جاتے ہیں تو یہ کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ شریعت کا مقصد صرف یہ ہے کہ قصداً اور ارادہ کرکے عورتوں‘ بچوں یا لڑائی وغیرہ سے عاجز بوڑھوں کو لڑائی میں کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے اور نہ انہیں قتل کیا جائے لیکن اگر حالت مجبوری ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ چراگاہ سے متعلق عربوں کا قاعدہ تھا‘ کہیں آباد اور سرسبز جنگل میں پہنچتے تو کتے کو اشارہ کرتے وہ بھونکتا جہاں تک اس کے بھونکنے کی آواز جاتی وہ جنگل بطور چراگاہ اپنے لئے محفوظ کرلیتے‘ کوئی دوسرا اپنا جانور اس میں نہ چرا سکتا۔ آنحضرتﷺ نے یہ طریق جو سراسر ظلم ہے موقوف کیا اور فرمایا کہ محفوظ چراگاہ اللہ یا اس کے رسولﷺ کا ہوسکتا ہے۔ اور امام یا حاکم بھی رسول کا قائم مقام ہے‘ دوسرے لوگ کوئی چراگاہ محفوظ نہیں کرسکتے‘ یہ اسلامی عہد کی بات ہے۔ آج کل حکومتیں چراگاہوں کے لئے خود قطعات چھوڑ دیتی ہیں جو عام پبلک کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ ان میں مقررہ ٹیکس ادا کرکے اپنے جانوروں کو چراتے ہیں۔ اسلام کی یہ اہم خوبی ہے کہ اس نے تمدنی‘ معاشرتی‘ اقتصادی‘ سیاسی زندگی کا ایک مکمل ترین ضابطہ حیات پیش کیا ہے۔ دین کامل کی یہی شان تھی۔ سچ ہے ﴿ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ﴾( آل عمران: ۸۵) صدق اللہ تبارک وتعالیٰ قال النووی اطفالھم فیما یتعلق بالاخرۃ فبھم ثلاث مذاہب قال الاکثرون ھم فی النار تبع لا بائھم وتوقف طائفۃ والثالث وھو الصحیح انھم من اھل الجنۃ قالہ الکرمانی (نووی) یعنی مشرکین کے بچوں کے بارے میں اکثر علماء کا خیال ہے کہ اپنے والدین کے تابع ہونے کی وجہ سے دوزخی ہیں۔ ایک جماعت اس میں توقف کرتی ہے اور تیسرا مذہب یہ ہے کہ وہ جنتی ہیں اور یہی صحیح ہے واللہ اعلم۔ اسلام کا حکم یہ ہے کہ لڑائی میں عورتوں بچوں یا بوڑھوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر رات کے وقت مسلمان ان پر حملہ آور ہوں تو ظاہر ہے کہ اندھیرے میں عورتوں بچوں کی تمیز مشکل ہو جائے گی۔ اب اگر یہ قتل ہو جاتے ہیں تو یہ کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ شریعت کا مقصد صرف یہ ہے کہ قصداً اور ارادہ کرکے عورتوں‘ بچوں یا لڑائی وغیرہ سے عاجز بوڑھوں کو لڑائی میں کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے اور نہ انہیں قتل کیا جائے لیکن اگر حالت مجبوری ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ چراگاہ سے متعلق عربوں کا قاعدہ تھا‘ کہیں آباد اور سرسبز جنگل میں پہنچتے تو کتے کو اشارہ کرتے وہ بھونکتا جہاں تک اس کے بھونکنے کی آواز جاتی وہ جنگل بطور چراگاہ اپنے لئے محفوظ کرلیتے‘ کوئی دوسرا اپنا جانور اس میں نہ چرا سکتا۔ آنحضرتﷺ نے یہ طریق جو سراسر ظلم ہے موقوف کیا اور فرمایا کہ محفوظ چراگاہ اللہ یا اس کے رسولﷺ کا ہوسکتا ہے۔ اور امام یا حاکم بھی رسول کا قائم مقام ہے‘ دوسرے لوگ کوئی چراگاہ محفوظ نہیں کرسکتے‘ یہ اسلامی عہد کی بات ہے۔ آج کل حکومتیں چراگاہوں کے لئے خود قطعات چھوڑ دیتی ہیں جو عام پبلک کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ ان میں مقررہ ٹیکس ادا کرکے اپنے جانوروں کو چراتے ہیں۔ اسلام کی یہ اہم خوبی ہے کہ اس نے تمدنی‘ معاشرتی‘ اقتصادی‘ سیاسی زندگی کا ایک مکمل ترین ضابطہ حیات پیش کیا ہے۔ دین کامل کی یہی شان تھی۔ سچ ہے ﴿ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ﴾( آل عمران: ۸۵) صدق اللہ تبارک وتعالیٰ قال النووی اطفالھم فیما یتعلق بالاخرۃ فبھم ثلاث مذاہب قال الاکثرون ھم فی النار تبع لا بائھم وتوقف طائفۃ والثالث وھو الصحیح انھم من اھل الجنۃ قالہ الکرمانی (نووی) یعنی مشرکین کے بچوں کے بارے میں اکثر علماء کا خیال ہے کہ اپنے والدین کے تابع ہونے کی وجہ سے دوزخی ہیں۔ ایک جماعت اس میں توقف کرتی ہے اور تیسرا مذہب یہ ہے کہ وہ جنتی ہیں اور یہی صحیح ہے واللہ اعلم۔