‌صحيح البخاري - حدیث 3005

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَا قِيلَ فِي الجَرَسِ وَنَحْوِهِ فِي أَعْنَاقِ الإِبِلِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، أَنَّ أَبَا بَشِيرٍ الأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: وَالنَّاسُ فِي مَبِيتِهِمْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَسُولًا أَنْ: «لاَ يَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلاَدَةٌ مِنْ وَتَرٍ، أَوْ قِلاَدَةٌ إِلَّا قُطِعَتْ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3005

کتاب: جہاد کا بیان باب : اونٹوں کی گردن میں گھنٹی وغیرہ جس سے آواز نکلے لٹکانا کیسا ہے ؟ ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکر نے‘ انہیں عباد بن تمیم نے اورانہین ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ وہ ایک سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ عبداللہ ( بن ابی بکر بن حزم راوی حدیث ) نے کہا کہ میراخیال ہے ابو بشیر نے کہا کہ لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک قاصد ( زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ) یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ جس شخص کے اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا ہو یا یوں فرمایا کہ گنڈا ( ہار ) ہو وہ اسے کاٹ ڈالے ۔
تشریح : معلوم ہوا کہ کسی جانور کے گلے میں محض زینت اور تفاخر کے لئے گھنٹی یا کوئی اور باجے کی قسم کا لٹکانا منع ہے۔ قال ابن الجوزی وفی المراد بالا وتار ثلاثۃ اقوال احدھم انھم کانوا یقلدون الابل اوتار القیسی لئلا یصیبھا العین بزعمھم فامروا یقطعھا اعلاما بان الاوتار لا ترد من امر اللہ شیئا یعنی پہلا قول یہ کہ جہلائے عرب اونٹوں کے گلوں میں کوئی تانت بطور تعویذ لٹکا دیتے تاکہ ان کو نظر بد نہ لگے۔ پس ان کے کاٹ پھینکنے کا حکم دیا گیا‘ تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کے حکم کو یہ لوٹا نہیں سکتی۔ دوسرا قول یہ کہ ایسے تانت وغیرہ جانوروں کے گلوں میں لٹکانے اس خوف سے منع کئے گئے کہ ممکن ہے وہ ان کے گلے میں تنگ ہو کر ان کا گلا گھونٹ دیں یا کسی درخت سے الجھ کر تکلیف کا باعث بن جائیں اور جانوروں کو ایذاء پہنچے۔ تیسرا قول یہ کہ وہ گھنٹے لٹکاتے حالانکہ بجنے والے گھنٹوں کی جگہ میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ حضرت امام بخاریؒ نے دارقطنی کی روایت کردہ اس حدیث پر اشارہ کیا ہے۔ جس میں صاف یوں ہے لا تبقین قلادۃ من وتر ولا جرس فی عنق بعیر الا قطع یعنی کسی بھی جانور کے گلے میں کوئی تانت ہو یا گھنٹہ وہ باقی نہ رکھے جائیں (فتح الباری) معلوم ہوا کہ کسی جانور کے گلے میں محض زینت اور تفاخر کے لئے گھنٹی یا کوئی اور باجے کی قسم کا لٹکانا منع ہے۔ قال ابن الجوزی وفی المراد بالا وتار ثلاثۃ اقوال احدھم انھم کانوا یقلدون الابل اوتار القیسی لئلا یصیبھا العین بزعمھم فامروا یقطعھا اعلاما بان الاوتار لا ترد من امر اللہ شیئا یعنی پہلا قول یہ کہ جہلائے عرب اونٹوں کے گلوں میں کوئی تانت بطور تعویذ لٹکا دیتے تاکہ ان کو نظر بد نہ لگے۔ پس ان کے کاٹ پھینکنے کا حکم دیا گیا‘ تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کے حکم کو یہ لوٹا نہیں سکتی۔ دوسرا قول یہ کہ ایسے تانت وغیرہ جانوروں کے گلوں میں لٹکانے اس خوف سے منع کئے گئے کہ ممکن ہے وہ ان کے گلے میں تنگ ہو کر ان کا گلا گھونٹ دیں یا کسی درخت سے الجھ کر تکلیف کا باعث بن جائیں اور جانوروں کو ایذاء پہنچے۔ تیسرا قول یہ کہ وہ گھنٹے لٹکاتے حالانکہ بجنے والے گھنٹوں کی جگہ میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ حضرت امام بخاریؒ نے دارقطنی کی روایت کردہ اس حدیث پر اشارہ کیا ہے۔ جس میں صاف یوں ہے لا تبقین قلادۃ من وتر ولا جرس فی عنق بعیر الا قطع یعنی کسی بھی جانور کے گلے میں کوئی تانت ہو یا گھنٹہ وہ باقی نہ رکھے جائیں (فتح الباری)