كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ الجِهَادِ بِإِذْنِ الأَبَوَيْنِ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا العَبَّاسِ الشَّاعِرَ، وَكَانَ - لاَ يُتَّهَمُ فِي حَدِيثِهِ - قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَهُ فِي الجِهَادِ، فَقَالَ: «أَحَيٌّ وَالِدَاكَ؟»، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : ماں باپ کی اجازت لے کرجہاد میں جانا
ہم سے آدم بن ابی ا یا س نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے کہا ، ہم سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے ابوالعباس ( شاعر ہونے کے ساتھ ) روایت حدیث میں بھی ثقہ اور قابل اعتماد تھے ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سنا ، آپ بیان کرتے تھے کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی ۔ آپ نے ان سے در یا فت فرمایا ، کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر انہیں میں جہاد کرو ۔ ( یعنی ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرو )
تشریح :
یعنی ان کی خدمت بجا لانا یہی تیرا جہاد ہے۔ اسی سے امام بخاریؒ نے باب کا مطلب نکالا کہ ماں باپ کی رضا مندی جہاد میں جانے کے واسطے لینا ضروری ہے۔ کیونکہ آنحضرتﷺ نے ان کی خدمت جہاد پر مقدم رکھی۔ کہتے ہیں کہ حضرت اویس قرنیؒ کی والدہ ضعیفہ زندہ تھیں‘ اور یہ ان کی خدمت میں مصروف تھے۔ اس لئے آنحضرتﷺ کی خدمت بابرکت میں حاضر نہ ہوسکے اور صحابیت کے شرف سے محروم رہ گئے۔ (وحیدی)
یعنی ان کی خدمت بجا لانا یہی تیرا جہاد ہے۔ اسی سے امام بخاریؒ نے باب کا مطلب نکالا کہ ماں باپ کی رضا مندی جہاد میں جانے کے واسطے لینا ضروری ہے۔ کیونکہ آنحضرتﷺ نے ان کی خدمت جہاد پر مقدم رکھی۔ کہتے ہیں کہ حضرت اویس قرنیؒ کی والدہ ضعیفہ زندہ تھیں‘ اور یہ ان کی خدمت میں مصروف تھے۔ اس لئے آنحضرتﷺ کی خدمت بابرکت میں حاضر نہ ہوسکے اور صحابیت کے شرف سے محروم رہ گئے۔ (وحیدی)