‌صحيح البخاري - حدیث 2995

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ التَّكْبِيرِ إِذَا عَلاَ شَرَفًا صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَفَلَ مِنَ الحَجِّ أَوِ العُمْرَةِ - وَلاَ أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ الغَزْوِ - يَقُولُ كُلَّمَا أَوْفَى عَلَى ثَنِيَّةٍ أَوْ فَدْفَدٍ: كَبَّرَ ثَلاَثًا، ثُمَّ قَالَ: «لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ»، قَالَ صَالِحٌ فَقُلْتُ لَهُ: أَلَمْ يَقُلْ عَبْدُ اللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ؟ قَالَ: لاَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2995

کتاب: جہاد کا بیان باب : جب بلندی پر چڑھے تو اللہ اکبر کہنا ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا ، ان سے صالح بن کیسان نے ، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج یا عمرہ سے واپس ہوتے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یوں کہا جب آپ جہاد سے لوٹتے ، تو جب بھی آپ کسی بلندی پر چڑھتے یا ( نشیب سے ) کنکریلے میدان میں آتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے ۔ پھر فرماتے ، اللہ کے سوار اور کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ملک اس کا ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے ۔ ہم واپس ہو رہے ہیں توبہ کرتے ہوئے ، عبادت کرتے ہوئے ۔ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے اور اس کی حمد پڑھتے ہوئے ، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا ( کفار کی ) تمام جماعتوں کو شکست دے دی ۔ صالح نے کہا کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے پوچھا کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے لفظ آئبون کے بعد انشاءاللہ نہیں کہا تھا تو انہوں نے بتایا کہ نہیں ۔
تشریح : رسول کریمﷺ نے حمد مذکورہ میں صدق اللہ وعدہ الخ کے الفاظ غزوہ خندق کے موقع پر ارشاد فرمائے تھے‘ اور حجۃ الوداع سے واپسی پر بھی جب کہ اسلام کو فتح کامل ہوچکی تھی اب بھی ان پاک ایام کی یاد تازہ کرنے کے لئے ان جملہ کلمات طیبات کو ایسے مبارک مواقع پر پڑھا جاسکتا ہے۔ لفظ مبارک ان شاء اللہ کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے نہ کہ ماضی کے اسی لئے اس موقع پر جو ماضی سے متعلق تھا‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے لفظ ان شاء اللہ نہیں کہا۔ رسول کریمﷺ نے حمد مذکورہ میں صدق اللہ وعدہ الخ کے الفاظ غزوہ خندق کے موقع پر ارشاد فرمائے تھے‘ اور حجۃ الوداع سے واپسی پر بھی جب کہ اسلام کو فتح کامل ہوچکی تھی اب بھی ان پاک ایام کی یاد تازہ کرنے کے لئے ان جملہ کلمات طیبات کو ایسے مبارک مواقع پر پڑھا جاسکتا ہے۔ لفظ مبارک ان شاء اللہ کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے نہ کہ ماضی کے اسی لئے اس موقع پر جو ماضی سے متعلق تھا‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے لفظ ان شاء اللہ نہیں کہا۔