كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ رَفْعِ الصَّوْتِ فِي التَّكْبِيرِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُنَّا إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى وَادٍ، هَلَّلْنَا وَكَبَّرْنَا ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ، تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَى جَدُّهُ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : بہت چلاکر تکبیر کہنا منع ہے
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عاصم نے ، ان سے ابوعثمان نے ، ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ جب ہم کسی وادی میں اترتے تو لا الہ الا اﷲ اور اﷲاکبر کہتے اور ہماری آواز بلند ہوجاتی اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے لوگو ! اپنی جانوں پر رحم کھاو ، کیوںکہ تم کسی بہرے یا غائب خدا کو نہیں پکار رہے ہو ۔ وہ تو تمہارے ساتھ ہی ہے ۔ بے شک وہ سننے والا اور تم سے بہت قریب ہے ۔ برکتوں والا ہے ۔ اس کا نام اور اس کی عظمت بہت ہی بڑی ہے ۔
تشریح :
قسطلانی نے طبری سے نقل کیا کہ اس حدیث سے ذکر بالجہر کی کراہیت ثابت ہوئی اور اکثر سلف صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے۔ میں (مولانا وحید الزمان مرحوم) کہتا ہوں تحقیق اس باب میں یہ ہے کہ سنت کی پیروی کرنا چاہئے جہاں جہر آنحضرت ﷺ سے منقول ہے وہاں جہر کرنا بہتر ہے۔ جیسے اذان میں اور باقی مقاموں میں آہستہ ذکر کرنا بہتر ہے۔ بعضوں نے کہا اس حدیث میں جس جہر سے آپﷺ نے منع فرمایا وہ بہت زور کا جہر ہے جس سے لوگ پریشان ہوں‘ نہ جہر متوسط‘ بالجملہ بہت زور سے نعرے مارنا اور ضربیں لگانا جیسا کہ بعض درویشوں کا معمول ہے‘ سنت کے خلاف ہے اور حضرت ﷺ کی پیروی ان پیروں کی پیروی پر مقدم ہے۔ (وحیدی)
مگر اسلامی شان و شوکت کے اظہار کے لئے جنگ جہاد وغیرہ مواقع پر نعرہ تکبیر بلند کرنا یہ امر دیگر ہے جیسا کہ پیچھے مذکور ہوا۔ روایت میں اللہ کے ساتھ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر وقت تمہاری ہر بلند اور آہستہ آواز کو سنتا ہے اور تم کو ہر وقت وہ دیکھ رہا ہے۔وہ اپنی ذات والا صفات سے عرش عظیم پر مستوی ہے۔ مگر اپنے علم اور سمع کے لحاظ سے ہر انسان کے ساتھ ہے۔
قسطلانی نے طبری سے نقل کیا کہ اس حدیث سے ذکر بالجہر کی کراہیت ثابت ہوئی اور اکثر سلف صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے۔ میں (مولانا وحید الزمان مرحوم) کہتا ہوں تحقیق اس باب میں یہ ہے کہ سنت کی پیروی کرنا چاہئے جہاں جہر آنحضرت ﷺ سے منقول ہے وہاں جہر کرنا بہتر ہے۔ جیسے اذان میں اور باقی مقاموں میں آہستہ ذکر کرنا بہتر ہے۔ بعضوں نے کہا اس حدیث میں جس جہر سے آپﷺ نے منع فرمایا وہ بہت زور کا جہر ہے جس سے لوگ پریشان ہوں‘ نہ جہر متوسط‘ بالجملہ بہت زور سے نعرے مارنا اور ضربیں لگانا جیسا کہ بعض درویشوں کا معمول ہے‘ سنت کے خلاف ہے اور حضرت ﷺ کی پیروی ان پیروں کی پیروی پر مقدم ہے۔ (وحیدی)
مگر اسلامی شان و شوکت کے اظہار کے لئے جنگ جہاد وغیرہ مواقع پر نعرہ تکبیر بلند کرنا یہ امر دیگر ہے جیسا کہ پیچھے مذکور ہوا۔ روایت میں اللہ کے ساتھ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر وقت تمہاری ہر بلند اور آہستہ آواز کو سنتا ہے اور تم کو ہر وقت وہ دیکھ رہا ہے۔وہ اپنی ذات والا صفات سے عرش عظیم پر مستوی ہے۔ مگر اپنے علم اور سمع کے لحاظ سے ہر انسان کے ساتھ ہے۔