كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ التَّكْبِيرِ عِنْدَ الحَرْبِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: صَبَّحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، وَقَدْ خَرَجُوا بِالْمَسَاحِي عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْهُ قَالُوا: هَذَا مُحَمَّدٌ، وَالخَمِيسُ مُحَمَّدٌ، وَالخَمِيسُ، فَلَجَئُوا إِلَى الحِصْنِ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَالَ: «اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ، فَسَاءَ صَبَاحُ المُنْذَرِينَ»، وَأَصَبْنَا حُمُرًا، فَطَبَخْنَاهَا، فَنَادَى مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:57]: إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِكُمْ عَنْ لُحُومِ الحُمُرِ، فَأُكْفِئَتْ القُدُورُ بِمَا فِيهَا تَابَعَهُ عَلِيٌّ، عَنْ سُفْيَانَ، رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ
کتاب: جہاد کا بیان
باب : جنگ کے وقت نعرہ تکبیر بلند کرنا
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے ایوب سختیانی نے ، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں داخل تھے ۔ اتنے میں وہاں کے رہنے والے ( یہودی ) پھاوڑے اپنی گردنوں پر لیے ہوئے نکلے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ( مع آپ کے لشکر کے ) دیکھا تو چلا اٹھے کہ یہ محمد لشکر کے ساتھ ( آگئے ) محمد لشکر کے ساتھ ، محمد لشکر کے ساتھ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چنانچہ وہ سب بھاگ کر قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئے ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور نعرہ تکبیر بلند فرمایا ، ساتھ ہی ارشاد ہوا کہ خیبر تو تباہ ہوچکا ۔ کہ جب کسی قوم کے آنگن میں ہم اتر آتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو جاتی ہے ۔ اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم کو گدھے مل گئے ، اور ہم نے انہیں ذبح کر کے پکانا شروع کردیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے یہ پکارا کہ اللہ اور اس کے رسول تمہیں گدھے کے گوشت سے منع کرتے ہیں ۔ چنانچہ ہانڈیوں میں جو کچھ تھا سب الٹ دیا گیا ۔ اس روایت کی متابعت علی نے سفیان سے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے تھے ۔
تشریح :
رسول کریمﷺ نے خیبر میں داخل ہوتے وقت نعرہ تکبیر بلند فرمایا‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ ہر مناسب موقعہ پر شوکت اسلام کے اظہار کے لئے نعرہ تکبیر بلند کرنا اسلامی شعار ہے۔ مگر صد افسوس کہ آج کل کے بیشتر نام نہاد مسلمانوں نے اس پاک نعرہ کی اہمیت گھٹانے کے لئے ’’ نعرہ رسالت یا رسول اللہ‘‘۔ ’’ نعرہ غوثیہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی‘‘ جیسے شرکیہ نعرے ایجاد کرکے شرک و بدعت کا ایسا دروازہ کھول دیا ہے جو تعلیمات اسلام کے سراسر برعکس ہے۔ اللہ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔
ایسے نعرے لگانا شرک کا ارتکاب کرنا ہے جن سے اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اولیاء کی بھی نافرمانی ہوتی ہے۔ مگر مسلمان نما مشرکوں نے ان کو محبت رسولﷺ اور محبت اولیاء سے تعبیر کیا ہے جو سراسر شیطانی دھوکا اور ان کے نفس امارہ کا فریب ہے۔
رسول کریمﷺ نے خیبر میں داخل ہوتے وقت نعرہ تکبیر بلند فرمایا‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ ہر مناسب موقعہ پر شوکت اسلام کے اظہار کے لئے نعرہ تکبیر بلند کرنا اسلامی شعار ہے۔ مگر صد افسوس کہ آج کل کے بیشتر نام نہاد مسلمانوں نے اس پاک نعرہ کی اہمیت گھٹانے کے لئے ’’ نعرہ رسالت یا رسول اللہ‘‘۔ ’’ نعرہ غوثیہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی‘‘ جیسے شرکیہ نعرے ایجاد کرکے شرک و بدعت کا ایسا دروازہ کھول دیا ہے جو تعلیمات اسلام کے سراسر برعکس ہے۔ اللہ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔
ایسے نعرے لگانا شرک کا ارتکاب کرنا ہے جن سے اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اولیاء کی بھی نافرمانی ہوتی ہے۔ مگر مسلمان نما مشرکوں نے ان کو محبت رسولﷺ اور محبت اولیاء سے تعبیر کیا ہے جو سراسر شیطانی دھوکا اور ان کے نفس امارہ کا فریب ہے۔