كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ الرِّدْفِ عَلَى الحِمَارِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ يُونُسُ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ يَوْمَ الفَتْحِ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ عَلَى رَاحِلَتِهِ مُرْدِفًا أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَمَعَهُ بِلاَلٌ، وَمَعَهُ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ مِنَ الحَجَبَةِ، حَتَّى أَنَاخَ فِي المَسْجِدِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْتِيَ بِمِفْتَاحِ البَيْتِ فَفَتَحَ، وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ أُسَامَةُ، وَبِلاَلٌ، وَعُثْمَانُ، فَمَكَثَ فِيهَا نَهَارًا طَوِيلًا، ثُمَّ خَرَجَ»، فَاسْتَبَقَ النَّاسُ، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ، فَوَجَدَ بِلاَلًا وَرَاءَ البَابِ قَائِمًا، فَسَأَلَهُ أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَشَارَ لَهُ إِلَى المَكَانِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى مِنْ سَجْدَةٍ
کتاب: جہاد کا بیان
باب : ایک گدھے پر دو آدمیوں کا سوار ہونا
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا ، انہیں نافع نے خبردی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے بالائی علاقے سے اپنی سواری پر تشریف لائے ۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کو آپ نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا دیا تھا اور آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ بھی جو کعبہ کے کلید بردار تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد الحرام میں اپنی سواری بٹھادی اور عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بیت اللہ الحرام کی کنجی لائیں ۔ انہوں نے کعبہ کا دروازہ کھول دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسامہ ، بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے ۔ آپ کافی دیر تک اندر ٹھہرے رہے ۔ اور جب باہر تشریف لائے تو صحابہ نے ( اندر جانے کے لیے ) ایک دوسرے سے آگے ہونے کی کوشش کی سب سے پہلے اندر داخل ہونے والے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے ۔ انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دروازے کے پیچھے کھڑا پایا اور ان سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کہاں پڑھی ہے ؟ انہوں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مجھے یہ پوچھنا یاد نہیں رہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں ۔
تشریح :
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ رسول کریمﷺ نے اونٹنی پر اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بھی بٹھلا رکھا تھا۔ اونٹنی بھی ایک جانور ہے جب اس پر دو آدمیوں کا سوار ہونا ثابت ہوا تو گدھے کو بھی اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے جیسا کہ اپنے اپنے مقام پر بیان ہوا ہے۔ یہی آپ کے مجتہد مطلق ہونے کی اہم دلیل ہے اور یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ ایک مجتہد مطلق کے لئے جن شرائط کا ہونا ضروری ہے وہ سب آپ کی ذات گرامی میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ اللہ سارے مجتہدین کرام کو جزائے خیر دے جنہوں نے خدمت اسلام کے لئے اپنے آپ کو کلیۃً وقف کردیا تھا‘ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔ حدیث میں لفظ حجبۃ حاجب کی جمع ہے جو دربان کے لئے بولا جاتا ہے۔ کعبہ شریف کے کلید بردار اور دربان یہی خاندان چلا آرہا ہے۔
علاقہ بھوج کچھ کے تاریخی دورہ از ۲۰ مئی تا ۸ جون ۷۱ء کے دوران اس پارے کی حدیث ۲۹۴۸ اور ۲۹۸۸ تک تسوید و تبیض کی گئی‘ اللہ پاک کی خدمت حدیث کو جملہ برادران شائقین بخاری شریف کے حق میں بطور صدقہ جاریہ قبول فرمائے آمین۔
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ رسول کریمﷺ نے اونٹنی پر اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بھی بٹھلا رکھا تھا۔ اونٹنی بھی ایک جانور ہے جب اس پر دو آدمیوں کا سوار ہونا ثابت ہوا تو گدھے کو بھی اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے جیسا کہ اپنے اپنے مقام پر بیان ہوا ہے۔ یہی آپ کے مجتہد مطلق ہونے کی اہم دلیل ہے اور یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ ایک مجتہد مطلق کے لئے جن شرائط کا ہونا ضروری ہے وہ سب آپ کی ذات گرامی میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ اللہ سارے مجتہدین کرام کو جزائے خیر دے جنہوں نے خدمت اسلام کے لئے اپنے آپ کو کلیۃً وقف کردیا تھا‘ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔ حدیث میں لفظ حجبۃ حاجب کی جمع ہے جو دربان کے لئے بولا جاتا ہے۔ کعبہ شریف کے کلید بردار اور دربان یہی خاندان چلا آرہا ہے۔
علاقہ بھوج کچھ کے تاریخی دورہ از ۲۰ مئی تا ۸ جون ۷۱ء کے دوران اس پارے کی حدیث ۲۹۴۸ اور ۲۹۸۸ تک تسوید و تبیض کی گئی‘ اللہ پاک کی خدمت حدیث کو جملہ برادران شائقین بخاری شریف کے حق میں بطور صدقہ جاریہ قبول فرمائے آمین۔