كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ حَمْلِ الزَّادِ فِي الغَزْوِ صحيح حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مَرْحُومٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَفَّتْ أَزْوَادُ النَّاسِ وَأَمْلَقُوا، فَأَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي نَحْرِ إِبِلِهِمْ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَلَقِيَهُمْ عُمَرُ فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: مَا بَقَاؤُكُمْ بَعْدَ إِبِلِكُمْ؟ فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا بَقَاؤُهُمْ بَعْدَ إِبِلِهِمْ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَادِ فِي النَّاسِ يَأْتُونَ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ»، فَدَعَا وَبَرَّكَ عَلَيْهِ، ثُمَّ دَعَاهُمْ بِأَوْعِيَتِهِمْ، فَاحْتَثَى النَّاسُ حَتَّى فَرَغُوا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : سفر جہاد میں توشہ ( خرچ وغیرہ ) ساتھ رکھنا
ہم سے بشر بن مرحوم نے بیان کیا ، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ، ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب لوگوں کے پاس زاد راہ ختم ہونے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوگ اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت لینے حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی ۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی ۔ اس اجازت کی اطلاع انہیں بھی ان لوگوں نے دی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا ، ان اونٹوں کے بعد پھر تمہارے پاس باقی کیا رہ جائے گا ( کیوں کہ انہیں پر سوار ہوکر اتنی دور دراز کی مسافت بھی تو طے کرنی تھی ) اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ ! لوگ اگر اپنے اونٹ بھی ذبح کردیں گے ۔ تو پھر اس کے بعد ان کے پاس باقی کیا رہ جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر لوگوں میں اعلان کردو کہ ( اونٹوں کو ذبح کرنے کے بجائے ) اپنا بچا کچھا توشہ لے کر یہاں آجائیں ۔ ( سب لوگوں نے جو کچھ بھی ان کے پاس کھانے کی چیز باقی بچ گئی تھی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کر رکھ دی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور اس میں برکت ہوئی ۔ پھر سب کو ان کے برتنوں کے ساتھ آپ نے بلایا ۔ سب نے بھر بھر کر اس میں سے لیا ۔ اور جب سب لوگ فارغ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اورکوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔
تشریح :
یہ معجزہ دیکھ کر خود آپﷺ نے اپنی رسالت پر گواہی دی‘ معجزہ اللہ پاک کی طرف سے ہوتا ہے جسے وہ اپنے رسولوں کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں سے دکھلایا کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لئے فرمایا کہ اونٹ تمام ذبح کر دئیے جاتے تو پھر فوجی مسلمان سواری کس پر کرتے اور سارا سفر پیدل کرنا بے حد مشکل تھا۔ یہ مشورہ صحیح تھا اس لئے آنحضرتﷺ نے اسے قبول فرمایا اور بعد میں سارے فوجیوں کے راشن کو جو باقی رہ گیا تھا آپﷺ نے اکٹھا کرا کر برکت کی دعا فرمائی اور اللہ نے اس میں اتنی برکت دی کہ سارے فوجیوں کو کافی ہوگیا۔
معجزے کا وجود برحق ہے۔ مگر یہ اللہ کی مرضی پر ہے وہ جب چاہے اپنے مقبول بندوں کے ہاتھوں یہ دکھلائے۔ خود رسولوں کو اپنے طور پر اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ ﴿ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء﴾
اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: وفی الحدیث حسن خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واجابتہ الی ما یلتمس منہ اصحابہ واجرائھم علی العادۃ البشریۃ فی الاحتیاج الی الزاد فی السفر ومنقبۃ ظاھرۃ لعمر دالۃ علی قوۃ یقینہ باجابۃ دعاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی حسن نظرہ للمسلمین علی انہ لیس فی اجابۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لھم علے نحرابلھم ما ینحتم انھم یبقون بلاظھر لاحتمال ان یبعث اللہ لھم ما یحملھم من غنیمۃ ونحوھا لکن اجاب عمر الی ما اشاربہ لتعجیل المعجزۃ بالبرکۃ التی حصلت فی الطعام وقد وقع لعمر شبیہ بھذہ القصۃ فی الماء وذلک فیما اخرجہ ابن ابی خزیمۃ وغیرہ وستاتی الاشارۃ الیہ فی علامات النبوۃ الخ (فتح الباری) یعنی اس حدیث سے آنحضرتﷺ کے اخلاق فاضلہ پر روشنی پڑتی ہے اور اس پر بھی کہ آپﷺ صحابہ کرامؓ کے کسی بھی بارے میں التماس کرنے پر فوراً توجہ فرماتے اور سفر میں توشہ راشن وغیرہ حاجات انسانی کا ان کے لئے پورا پورا خیال رکھتے تھے۔ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ ان کو آنحضرتﷺ کی دعاؤں کی قبولیت پر کس قدر یقین کامل تھا اور مسلمانوں کے متعلق ان کی کتنی اچھی نظر تھی۔ وہ جانتے تھے کہ آنحضرتﷺ نے ان کے لئے جو اونٹوں کو ذبح کرنے کا مشورہ دیا ہے یہ اس احتمال پر ہے کہ ان کو ذبح کرنے کے بعد بھی اللہ پاک ان کے لئے غنیمت وغیرہ سے سواریوں کا انتظام کرا ہی دے گا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرتﷺ کی برکت کی دعاؤں کے لئے عجلت فرمائی تاکہ بطور معجزہ کھانے میں برکت حاصل ہو اور اونٹوں کو ذبح کرنے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ ایک دفعہ پانی کے قصہ میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسی کے مشابہ معاملہ پیش آیا تھا۔ جس کا اشارہ علامات النبوۃ میں آئے گا۔
بعض فقہاء نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ گرانی کے وقت امام لوگوں کے فالتو غلہ کے ذخیروں کو بازار میں فروخت کے لئے حکماً نکلوا سکتا ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے لئے اسی میں خیر ہے نہ کہ غلہ کے پوشیدہ رکھنے میں۔
یہ معجزہ دیکھ کر خود آپﷺ نے اپنی رسالت پر گواہی دی‘ معجزہ اللہ پاک کی طرف سے ہوتا ہے جسے وہ اپنے رسولوں کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں سے دکھلایا کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لئے فرمایا کہ اونٹ تمام ذبح کر دئیے جاتے تو پھر فوجی مسلمان سواری کس پر کرتے اور سارا سفر پیدل کرنا بے حد مشکل تھا۔ یہ مشورہ صحیح تھا اس لئے آنحضرتﷺ نے اسے قبول فرمایا اور بعد میں سارے فوجیوں کے راشن کو جو باقی رہ گیا تھا آپﷺ نے اکٹھا کرا کر برکت کی دعا فرمائی اور اللہ نے اس میں اتنی برکت دی کہ سارے فوجیوں کو کافی ہوگیا۔
معجزے کا وجود برحق ہے۔ مگر یہ اللہ کی مرضی پر ہے وہ جب چاہے اپنے مقبول بندوں کے ہاتھوں یہ دکھلائے۔ خود رسولوں کو اپنے طور پر اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ ﴿ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء﴾
اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: وفی الحدیث حسن خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واجابتہ الی ما یلتمس منہ اصحابہ واجرائھم علی العادۃ البشریۃ فی الاحتیاج الی الزاد فی السفر ومنقبۃ ظاھرۃ لعمر دالۃ علی قوۃ یقینہ باجابۃ دعاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی حسن نظرہ للمسلمین علی انہ لیس فی اجابۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لھم علے نحرابلھم ما ینحتم انھم یبقون بلاظھر لاحتمال ان یبعث اللہ لھم ما یحملھم من غنیمۃ ونحوھا لکن اجاب عمر الی ما اشاربہ لتعجیل المعجزۃ بالبرکۃ التی حصلت فی الطعام وقد وقع لعمر شبیہ بھذہ القصۃ فی الماء وذلک فیما اخرجہ ابن ابی خزیمۃ وغیرہ وستاتی الاشارۃ الیہ فی علامات النبوۃ الخ (فتح الباری) یعنی اس حدیث سے آنحضرتﷺ کے اخلاق فاضلہ پر روشنی پڑتی ہے اور اس پر بھی کہ آپﷺ صحابہ کرامؓ کے کسی بھی بارے میں التماس کرنے پر فوراً توجہ فرماتے اور سفر میں توشہ راشن وغیرہ حاجات انسانی کا ان کے لئے پورا پورا خیال رکھتے تھے۔ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ ان کو آنحضرتﷺ کی دعاؤں کی قبولیت پر کس قدر یقین کامل تھا اور مسلمانوں کے متعلق ان کی کتنی اچھی نظر تھی۔ وہ جانتے تھے کہ آنحضرتﷺ نے ان کے لئے جو اونٹوں کو ذبح کرنے کا مشورہ دیا ہے یہ اس احتمال پر ہے کہ ان کو ذبح کرنے کے بعد بھی اللہ پاک ان کے لئے غنیمت وغیرہ سے سواریوں کا انتظام کرا ہی دے گا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرتﷺ کی برکت کی دعاؤں کے لئے عجلت فرمائی تاکہ بطور معجزہ کھانے میں برکت حاصل ہو اور اونٹوں کو ذبح کرنے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ ایک دفعہ پانی کے قصہ میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسی کے مشابہ معاملہ پیش آیا تھا۔ جس کا اشارہ علامات النبوۃ میں آئے گا۔
بعض فقہاء نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ گرانی کے وقت امام لوگوں کے فالتو غلہ کے ذخیروں کو بازار میں فروخت کے لئے حکماً نکلوا سکتا ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے لئے اسی میں خیر ہے نہ کہ غلہ کے پوشیدہ رکھنے میں۔