‌صحيح البخاري - حدیث 2979

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ حَمْلِ الزَّادِ فِي الغَزْوِ صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، وَحَدَّثَتْنِي أَيْضًا فَاطِمَةُ، عَنْ أَسْمَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: صَنَعْتُ سُفْرَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ، حِينَ أَرَادَ أَنْ يُهَاجِرَ إِلَى المَدِينَةِ، قَالَتْ: فَلَمْ نَجِدْ لِسُفْرَتِهِ، وَلاَ لِسِقَائِهِ مَا نَرْبِطُهُمَا بِهِ، فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ: «وَاللَّهِ مَا أَجِدُ شَيْئًا أَرْبِطُ بِهِ إِلَّا نِطَاقِي»، قَالَ: فَشُقِّيهِ بِاثْنَيْنِ، فَارْبِطِيهِ: بِوَاحِدٍ السِّقَاءَ، وَبِالْآخَرِ السُّفْرَةَ، «فَفَعَلْتُ، فَلِذَلِكَ سُمِّيَتْ ذَاتَ النِّطَاقَيْنِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2979

کتاب: جہاد کا بیان باب : سفر جہاد میں توشہ ( خرچ وغیرہ ) ساتھ رکھنا ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی ، نیز مجھ سے فاطمہ نے بھی بیان کیا ، اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ہجرت کا ارادہ کیا تو میں نے ( والد ماجد حضرت ) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آپ کے لیے سفر کا ناشتہ تیار کیا تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب آپ کے ناشتے اور پانی کو باندھنے کے لیے کوئی چیز نہیں ملی ، تو میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بجز میرے کمر بند کے اور کوئی چیز اسے باندھنے کے لیے نہیں ہے ۔ تو انہوں نے فرمایا کہ پھر اسی کے دو ٹکڑے کر لو ۔ ایک سے ناشتہ باند ھ دینا اور دوسرے سے پانی ، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ، اور اسی وجہ سے میرا نام’ذات الناطقین “ ( دو کمربندوں والی ) پڑگیا ۔
تشریح : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کا نام اسماء رضی اللہ عنہا ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں۔ مکہ ہی میں اسلام لائیں۔ اس وقت تک صرف سترہ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس برس بڑی تھیں۔ اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ۷۳ھ میں بعمر ایک سو سال آپ نے مکہ ہی میں انتقال فرمایا۔ باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کے لئے اس نیک خاتون نے ہجرت کے سفر کے وقت ناشتہ تیار کیا۔ اسی سے ہر سفر میں خواہ حج کا سفر ہو یا جہاد کا راشن ساتھ لے جانے کا اثبات ہوا۔ خاص طور پر فوجوں کے لئے راشن کا پورا انتظام کرنا ہر متمدن حکومت کے لئے ضروری ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کا نام اسماء رضی اللہ عنہا ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں۔ مکہ ہی میں اسلام لائیں۔ اس وقت تک صرف سترہ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس برس بڑی تھیں۔ اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ۷۳ھ میں بعمر ایک سو سال آپ نے مکہ ہی میں انتقال فرمایا۔ باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کے لئے اس نیک خاتون نے ہجرت کے سفر کے وقت ناشتہ تیار کیا۔ اسی سے ہر سفر میں خواہ حج کا سفر ہو یا جہاد کا راشن ساتھ لے جانے کا اثبات ہوا۔ خاص طور پر فوجوں کے لئے راشن کا پورا انتظام کرنا ہر متمدن حکومت کے لئے ضروری ہے۔