كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ الجَعَائِلِ وَالحُمْلاَنِ فِي السَّبِيلِ صحيح حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، سَأَلَ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ، فَقَالَ زَيْدٌ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَرَأَيْتُهُ يُبَاعُ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آشْتَرِيهِ؟ فَقَالَ: «لاَ تَشْتَرِهِ، وَلاَ تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : کسی کو اجرت دے کر اپنے طرف سے جہاد کرانا اور اللہ کی راہ میں سواری دینا
ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے مالک بن انس سے سنا ، انہوں نے زید بن اسلم سے پوچھا تھا اور زید نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا تھا ، وہ بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے اللہ کے راستے میں ( جہاد کے لیے ) اپنا ایک گھوڑا ایک شخص کو سواری کے لیے دے دیا تھا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ ( بازار میں ) وہی گھوڑا بک رہا ہے ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اسے خرید سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس گھوڑے کو تم نہ خریدو اور اپنا صدقہ ( خواہ خرید کر ہی ہو ) واپس نہ لو ۔
تشریح :
ترجمۃ الباب میں وہ اجرت مراد ہے جو جہاد میں شرکت نہ کرنے والا کوئی شخص اپنی طرف سے کسی آدمی کو اجرت دے کر جہاد پر بھیجتا ہے۔ جہاں تک جہاد پر اجرت کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ اجرت لینی جائز ہے۔ یوں تو جہاد کا حکم سب کے لئے برابر ہے۔ اس لئے کسی معقول عذر کے بغیر اس میں شرکت سے پہلو تہی کرنا مناسب نہیں۔ البتہ یہ صورت اس سے الگ ہے کہ کسی پر جہاد فرض یا واجب نہ ہو اور وہ جہاد میں جانے والے کی مدد کرکے ثواب میں شریک ہو جائے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کیا تھا۔ ہاں جہاد میں شرکت سے بچنے کے لئے اگر ایسا کرتا ہے تو بہتر نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب میں وہ اجرت مراد ہے جو جہاد میں شرکت نہ کرنے والا کوئی شخص اپنی طرف سے کسی آدمی کو اجرت دے کر جہاد پر بھیجتا ہے۔ جہاں تک جہاد پر اجرت کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ اجرت لینی جائز ہے۔ یوں تو جہاد کا حکم سب کے لئے برابر ہے۔ اس لئے کسی معقول عذر کے بغیر اس میں شرکت سے پہلو تہی کرنا مناسب نہیں۔ البتہ یہ صورت اس سے الگ ہے کہ کسی پر جہاد فرض یا واجب نہ ہو اور وہ جہاد میں جانے والے کی مدد کرکے ثواب میں شریک ہو جائے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کیا تھا۔ ہاں جہاد میں شرکت سے بچنے کے لئے اگر ایسا کرتا ہے تو بہتر نہیں ہے۔