كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابٌ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّهَارِ أَخَّرَ القِتَالَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ صحيح ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا قَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ العَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ»، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : نبی کریم ﷺ دن ہوتے ہی اگر جنگ نہ شروع کردیتے تو سورج کے ڈھلنے تک لڑائی ملتوی رکھتے
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا لوگو ! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو ، بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو ، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو ، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی ، اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے ، بادل بھیجنے والے ، احزاب ( دشمن کے دستوں ) کو شکست دینے والے ، انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر ۔
تشریح :
معلوم ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو لڑائی کو ٹالنا اچھا ہے۔ اگر کوئی صلح کی عمدہ صورت نکل سکے۔ کیونکہ اسلام فتنہ و فساد کے سخت خلاف ہے۔ ہاں جب کوئی صورت نہ بنے اور دشمن مقابلہ ہی پر آمادہ ہو تو جم کر اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور ایسے موقعہ پر اس دعائے مسنونہ کا پڑھنا ضروری ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ یعنی اللھم منزل الکتاب ومجری السحاب وھازم الاحزاب اھزمھم وانصرنا علیھم جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جنت کے لئے مالی و جانی قربانی کی ضرورت ہے جنت کا سودا کوئی سستا سودا نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت قرآن ﴿ اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ﴾(التوبۃ: ۱۱۱) میں مذکور ہے۔
معلوم ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو لڑائی کو ٹالنا اچھا ہے۔ اگر کوئی صلح کی عمدہ صورت نکل سکے۔ کیونکہ اسلام فتنہ و فساد کے سخت خلاف ہے۔ ہاں جب کوئی صورت نہ بنے اور دشمن مقابلہ ہی پر آمادہ ہو تو جم کر اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور ایسے موقعہ پر اس دعائے مسنونہ کا پڑھنا ضروری ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ یعنی اللھم منزل الکتاب ومجری السحاب وھازم الاحزاب اھزمھم وانصرنا علیھم جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جنت کے لئے مالی و جانی قربانی کی ضرورت ہے جنت کا سودا کوئی سستا سودا نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت قرآن ﴿ اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ﴾(التوبۃ: ۱۱۱) میں مذکور ہے۔