كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ البَيْعَةِ فِي الحَرْبِ أَنْ لاَ يَفِرُّوا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَى المَوْتِ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ زَمَنُ الحَرَّةِ أَتَاهُ آتٍ فَقَالَ لَهُ: إِنَّ ابْنَ حَنْظَلَةَ يُبَايِعُ النَّاسَ عَلَى المَوْتِ، فَقَالَ: لاَ أُبَايِعُ عَلَى هَذَا أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: جہاد کا بیان
باب : لڑائی سے نہ بھاگنے پر اور بعضوں نے کہا مر جانے پر بیعت کرنا
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا ، کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ نے ، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حرہ کی لڑائی کے زمانہ میں ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہا کہ عبداللہ بن حنظلہ لوگوں سے ( یزید کے خلاف ) موت پر بیعت لے رہے ہیں ۔ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب میں موت پر کسی سے بیعت نہیں کروں گا ۔
تشریح : 
حرہ کی لڑائی کی تفصیل یہ کہ ۶۳ھ میں حضرت عبداللہ بن حنظلہ اور کئی مدینہ والے یزید کو دیکھنے گئے۔ جبکہ وہ لوگوں سے اپنی خلافت کی بیعت لے رہا تھا۔ مدینہ کے اس وفد نے جائزہ لیا تو یزید کو خلافت کا نا اہل پایا۔ اور اس کی حرکات ناشائستہ سے بیزار ہو کر واپس مدینہ لوٹے اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرلی۔ یزید کو جب خبر ہوئی تو اس نے مسلم بن عقبہ کو سردار بنا کر ایک بڑا لشکر مدینہ روانہ کردیا۔ جس نے اہل مدینہ پر بہت سے ظلم ڈھائے‘ سینکڑوں ہزاروں صحابہ وتابعین اور عوام و خواص‘ مردوں و عورتوں اور بچوں تک کو قتل کیا۔ یہ حادثہ حرہ نامی ایک میدان متصل مدینہ میں ہوا۔ اسی لئے اس کی طرف منسوب ہوا۔ عبداللہ بن زید کا مطلب یہ تھا کہ ہم تو خود رسول کریمﷺ کے دست حق پرست پر موت کی بیعت کرچکے ہیں۔ اب دوبارہ کسی اور کے ہاتھ پر اس کی تجدید کی ضرورت نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ موت پر بھی بیعت کی جاسکتی ہے۔ جس سے استقامت اور صبر مراد ہے۔
حرہ کی لڑائی کی تفصیل یہ کہ ۶۳ھ میں حضرت عبداللہ بن حنظلہ اور کئی مدینہ والے یزید کو دیکھنے گئے۔ جبکہ وہ لوگوں سے اپنی خلافت کی بیعت لے رہا تھا۔ مدینہ کے اس وفد نے جائزہ لیا تو یزید کو خلافت کا نا اہل پایا۔ اور اس کی حرکات ناشائستہ سے بیزار ہو کر واپس مدینہ لوٹے اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرلی۔ یزید کو جب خبر ہوئی تو اس نے مسلم بن عقبہ کو سردار بنا کر ایک بڑا لشکر مدینہ روانہ کردیا۔ جس نے اہل مدینہ پر بہت سے ظلم ڈھائے‘ سینکڑوں ہزاروں صحابہ وتابعین اور عوام و خواص‘ مردوں و عورتوں اور بچوں تک کو قتل کیا۔ یہ حادثہ حرہ نامی ایک میدان متصل مدینہ میں ہوا۔ اسی لئے اس کی طرف منسوب ہوا۔ عبداللہ بن زید کا مطلب یہ تھا کہ ہم تو خود رسول کریمﷺ کے دست حق پرست پر موت کی بیعت کرچکے ہیں۔ اب دوبارہ کسی اور کے ہاتھ پر اس کی تجدید کی ضرورت نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ موت پر بھی بیعت کی جاسکتی ہے۔ جس سے استقامت اور صبر مراد ہے۔
