‌صحيح البخاري - حدیث 2947

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَنْ أَرَادَ غَزْوَةً فَوَرَّى بِغَيْرِهَا، وَمَنْ أَحَبَّ الخُرُوجَ يَوْمَ الخَمِيسِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ: قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ «حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ غَزْوَةً إِلَّا وَرَّى بِغَيْرِهَا»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2947

کتاب: جہاد کا بیان باب : لڑائی کا مقام چھپانا ( دوسرا مقام بیان کرنا ) اور جمعرات کے دن سفر کرنا ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ نے ، کعب رضی اللہ عنہ ( جب نابینا ہو گئے تھے ) کے ساتھ ان کے دوسرے صاحبزادوں میں یہی عبداللہ انہیں لے کر راستے میں ان کے آگے آگے چلتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصول یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو ( مصلحت کے لیے ) دوسرا مقام بیان کرتے ۔ ( تاکہ دشمن کو خبر نہ ہو ) ۔
تشریح : لفظ توریہ کے معنی یہ کہ کسی بات کو اشارے کنائے سے کہہ دینا کہ صاف طور سے کوئی نہ سمجھ سکے۔ ایسا توریہ جنگی مصالح کے لئے جائز ہے۔ لعل الحکمۃ فیہ ماروی عن قولہ صلی اللہ علیہ وسلم بورک لامتی فی بکورھا یوم الخمیس وکونہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یحب الخروج یوم الخمیس لا یستلزم المواظبۃ علیہ القیام ماتع منہ وسیاتی بعد باب انہ خرج فی بعض اسفارہ یوم السبت ثم اورد المصنف طرفا من حدیث کعب بن مالک الطویل وھو ظاھر فیما ترجم لہ قال الکرمانی کعب ھو ابن مالک الانصاری احد الثلاثۃ الذین خلفوا وصار اعمی وکان لہ ابناء وکان عبداللہ یقودہ من بین ساتر بنیہ (حاشیۃ بخاری) یعنی اس میں حکمت یہ کہ آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ میری امت کے لئے جمعرات کے روز صبح سفر کرنے میں برکت رکھی گئی ہے مگر اس سے مواظبت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ بعض سفر آپﷺ نے ہفتے کو بھی شروع فرمائے ہیں۔ حضرت امامؒ یہاں کعب بن مالک کی طویل حدیث لائے ہیں جس سے ترجمۃ الباب ظاہر ہے۔ کعب بن مالک وہی انصاری صحابی ہیں جو تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے۔ آپؓ کے کئی لڑکے تھے جن میں سے عبداللہ نامی آپ کا ہاتھ پکڑ کے چلا کرتا تھا۔ لفظ توریہ کے معنی یہ کہ کسی بات کو اشارے کنائے سے کہہ دینا کہ صاف طور سے کوئی نہ سمجھ سکے۔ ایسا توریہ جنگی مصالح کے لئے جائز ہے۔ لعل الحکمۃ فیہ ماروی عن قولہ صلی اللہ علیہ وسلم بورک لامتی فی بکورھا یوم الخمیس وکونہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یحب الخروج یوم الخمیس لا یستلزم المواظبۃ علیہ القیام ماتع منہ وسیاتی بعد باب انہ خرج فی بعض اسفارہ یوم السبت ثم اورد المصنف طرفا من حدیث کعب بن مالک الطویل وھو ظاھر فیما ترجم لہ قال الکرمانی کعب ھو ابن مالک الانصاری احد الثلاثۃ الذین خلفوا وصار اعمی وکان لہ ابناء وکان عبداللہ یقودہ من بین ساتر بنیہ (حاشیۃ بخاری) یعنی اس میں حکمت یہ کہ آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ میری امت کے لئے جمعرات کے روز صبح سفر کرنے میں برکت رکھی گئی ہے مگر اس سے مواظبت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ بعض سفر آپﷺ نے ہفتے کو بھی شروع فرمائے ہیں۔ حضرت امامؒ یہاں کعب بن مالک کی طویل حدیث لائے ہیں جس سے ترجمۃ الباب ظاہر ہے۔ کعب بن مالک وہی انصاری صحابی ہیں جو تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے۔ آپؓ کے کئی لڑکے تھے جن میں سے عبداللہ نامی آپ کا ہاتھ پکڑ کے چلا کرتا تھا۔