كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ دُعَاءِ النَّبِيِّ ﷺ النَّاسَ إِلَى الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّةِ صحيح قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَأَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ أَنَّهُ كَانَ بِالشَّأْمِ فِي رِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدِمُوا تِجَارًا فِي المُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ، فَوَجَدَنَا رَسُولُ قَيْصَرَ بِبَعْضِ الشَّأْمِ، فَانْطُلِقَ بِي وَبِأَصْحَابِي، حَتَّى قَدِمْنَا إِيلِيَاءَ، فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي مَجْلِسِ مُلْكِهِ، وَعَلَيْهِ التَّاجُ، وَإِذَا حَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ، فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: سَلْهُمْ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ [ص:46]: أَنَا أَقْرَبُهُمْ إِلَيْهِ نَسَبًا، قَالَ: مَا قَرَابَةُ مَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ؟ فَقُلْتُ: هُوَ ابْنُ عَمِّي، وَلَيْسَ فِي الرَّكْبِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ غَيْرِي، فَقَالَ قَيْصَرُ: أَدْنُوهُ، وَأَمَرَ بِأَصْحَابِي، فَجُعِلُوا خَلْفَ ظَهْرِي عِنْدَ كَتِفِي، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لِأَصْحَابِهِ: إِنِّي سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلَ عَنِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبَ فَكَذِّبُوهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَاللَّهِ لَوْلاَ الحَيَاءُ يَوْمَئِذٍ، مِنْ أَنْ يَأْثُرَ أَصْحَابِي عَنِّي الكَذِبَ، لَكَذَبْتُهُ حِينَ سَأَلَنِي عَنْهُ، وَلَكِنِّي اسْتَحْيَيْتُ أَنْ يَأْثُرُوا الكَذِبَ عَنِّي، فَصَدَقْتُهُ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ كَيْفَ نَسَبُ هَذَا الرَّجُلِ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا القَوْلَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لاَ، فَقَالَ: كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ عَلَى الكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: فَيَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ؟ قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لاَ، وَنَحْنُ الآنَ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ، نَحْنُ نَخَافُ أَنْ يَغْدِرَ، - قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَلَمْ يُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا أَنْتَقِصُهُ بِهِ، لاَ أَخَافُ أَنْ تُؤْثَرَ عَنِّي غَيْرُهَا -، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ أَوْ قَاتَلَكُمْ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَتْ حَرْبُهُ وَحَرْبُكُمْ؟ قُلْتُ: كَانَتْ دُوَلًا وَسِجَالًا، يُدَالُ عَلَيْنَا المَرَّةَ، وَنُدَالُ عَلَيْهِ الأُخْرَى، قَالَ: فَمَاذَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ؟ قَالَ: يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ لاَ نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَانَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ، فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ حِينَ قُلْتُ ذَلِكَ لَهُ: قُلْ لَهُ: إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فِيكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ ذُو نَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا القَوْلَ قَبْلَهُ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَالَ هَذَا القَوْلَ قَبْلَهُ، قُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَمُّ بِقَوْلٍ قَدْ قِيلَ قَبْلَهُ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ، قُلْتُ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ: أَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حِينَ تَخْلِطُ [ص:47] بَشَاشَتُهُ القُلُوبَ، لاَ يَسْخَطُهُ أَحَدٌ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ، فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ يَغْدِرُونَ، وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ، وَأَنَّ حَرْبَكُمْ وَحَرْبَهُ تَكُونُ دُوَلًا، وَيُدَالُ عَلَيْكُمُ المَرَّةَ وَتُدَالُونَ عَلَيْهِ الأُخْرَى، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى وَتَكُونُ لَهَا العَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ: بِمَاذَا يَأْمُرُكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَاكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ النَّبِيِّ، قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَكِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، وَإِنْ يَكُ مَا قُلْتَ حَقًّا، فَيُوشِكُ أَنْ يَمْلِكَ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَلَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَيْهِ، لَتَجَشَّمْتُ لُقِيَّهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ قَدَمَيْهِ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُرِئَ، فَإِذَا فِيهِ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى، أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَعَلَيْكَ إِثْمُ الأَرِيسِيِّينَ وَ: {يَا أَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ، أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ، فَإِنْ تَوَلَّوْا، فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ} [آل عمران: 64] ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا أَنْ قَضَى مَقَالَتَهُ، عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِينَ حَوْلَهُ مِنْ عُظَمَاءِ الرُّومِ، وَكَثُرَ لَغَطُهُمْ، فَلاَ أَدْرِي مَاذَا قَالُوا، وَأُمِرَ بِنَا، فَأُخْرِجْنَا، فَلَمَّا أَنْ خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِي، وَخَلَوْتُ بِهِمْ قُلْتُ لَهُمْ: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، هَذَا مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ يَخَافُهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَاللَّهِ مَا زِلْتُ ذَلِيلًا مُسْتَيْقِنًا بِأَنَّ أَمْرَهُ سَيَظْهَرُ، حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ قَلْبِي الإِسْلاَمَ وَأَنَا كَارِهٌ
کتاب: جہاد کا بیان باب : نبی کریم ﷺکا (غیر مسلموں کو) اسلام کی طرف دعوت دینا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مجھے ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ قریش کے ایک قافلے کے ساتھ وہ ان دنوں شام میں مقیم تھے ۔ یہ قافلہ اس دور میں یہاں تجارت کی غرض سے آیا تھا جس میں آنحضرت اور کفار قریش میں باہم صلح ہوچکی تھی ۔ ( صلح حدیبیہ ) ابو سفیان نے کہا کہ قیصر کے آدمی کی ہم سے شام کے ایک مقام پر ملاقات ہوئی اور وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنے ( قیصر کے دربار میں بیت المقدس ) لے کر چلا پھر جب ہم ایلیا ( بیت المقدس ) پہنچے تو قیصر کے دربار میں ہماری بازیابی ہوئی ۔ اس وقت قیصر دربار میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے سر پر تاج تھا اور روم کے امراء اس کے ارد گرد تھے ، اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو کہ جنہوں نے ان کے یہاں نبوت کا دعویٰ کیا ہے نسب کے اعتبار سے ان سے قریب ان میں سے کون شخص ہے ؟ ابو سفیان نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں نسب کے اعتبار سے ان کے زیادہ قریب ہوں ۔ قیصر نے پوچھا تمہاری اور ان کی قرابت کیا ہے ؟ میں نے کہا ( رشتے میں ) وہ میرے چچازاد بھائی ہوتے ہیں ، اتفاق تھا کہ اس مرتبہ قافلے میں میرے سوا بنی عبد مناف کا اور آدمی موجود نہیں تھا ۔ قیصر نے کہا کہ اس شخص ( ابو سفیان رضی اللہ عنہ ) کو مجھ سے قریب کر دو اور جو لوگ میرے ساتھ تھے اس کے حکم سے میرے پیچھے قریب میں کھڑے کر دئیے گئے ۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس شخص ( ابو سفیان ) کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ اس سے میں ان صاحب کے بارے میں پوچھوں گا جو نبی ہونے کے مدعی ہیں ، اگر یہ ان کے بارے میں کوئی جھوٹ بات کہے تو تم فوراً اس کی تکذیب کردو ۔ ابو سفیان نے بیان کیا کہ خدا کی قسم ! اگر اس دن اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کر بیٹھیں تو میں ان سوالات کے جوابات میں ضرور جھوٹ بول جاتا جو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کئے تھے ، لیکن مجھے تو اس کا خطرہ لگا رہا کہ کہیں میرے ساتھی میری تکدیب نہ کردیں ۔ اس لیے میں نے سچائی سے کام لیا ۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے پوچھو کہ تم لوگوں میں ان صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب کیسا سمجھا جاتا ہے ؟ میں نے بتایا کہ ہم میں ان کا نسب بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس نے پوچھا اچھا یہ نبوت کا دعویٰ اس سے پہلے بھی تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا ؟ میں نے کہا کہ نہیں ۔ اس نے پوچھا کیا اس دعویٰ سے پہلے ان پر کوئی جھوٹ کا الزام تھا ؟ میں نے کہا کہ نہیں ، اس نے پوچھا ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ۔ اس نے پوچھا تو اب بڑے امیر لوگ ان کی اتباع کرتے ہیں یا کمزور اور کم حیثیت کے لوگ ؟ میں نے کہا کہ کمزور اور معمولی حیثیت کے لوگ ہی ان کے ( زیادہ تر ماننے والے ہیں ) اس نے پوچھا کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا گھٹتی جارہی ہے ؟ میں نے کہا جی نہیں تعداد برابر بڑھتی جارہی ہے ۔ اس نے پوچھا کوئی ان کے دین سے بیزار ہوکر اسلام لانے کے بعد پھر بھی گیا ہے کیا ؟ میں نے کہا کہ نہیں ، اس نے پوچھا انہوں نے کبھی وعدہ خلافی بھی کی ہے ؟ میں نے کہا کہ نہیں لیکن آج کل ہمارا ان سے ایک معاہدہ ہو رہا ہے اور ہ میں ان کی طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے ۔ ابو سفیان نے کہا کہ پوری گفتگو میں سوا اس کے اور کوئی ایسا موقع نہیں ملا جس میں میں کوئی ایسی بات ( جھوٹی ) ملاسکوں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہو ۔ اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے بھی جھٹلانے کا ڈر نہ ہو ۔ اس نے پھر پوچھا کیا تم نے کبھی ان سے لڑائی کی ہے یا انہوں نے تم سے جنگ کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں ، اس نے پوچھا تمہاری لڑائی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟ میں نے کہا لڑائی میں ہمیشہ کسی ایک گروہ نے فتح نہیں حاصل کی ۔ کبھی وہ ہ میں مغلوب کرلیتے ہیں اور کبھی ہم انہیں ، اس نے پوچھا وہ تمہیں کن کاموں کا حکم دیتے ہیں ؟ کہا ہ میں وہ اس کا حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں ، ہ میں ان بتوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے ، نماز ، صدقہ ، پاک بازی و مروت ، وفاءعہد اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ جب میں اسے یہ تمام باتیں بتاچکا تو اس نے اپنے ترجمان سے کہا ، ان سے کہو کہ میں نے تم سے ان صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے متعلق دریافت کیا تو تم نے بتایا کہ وہ تمہارے یہاں صاحب نسب اور شریف سمجھے جاتے ہیں اور انبیاءبھی یوں ہی اپنی قوم کے اعلیٰ نسب میں پیدا کئے جاتے ہیں ۔ میں نے تم سے یہ پوچھا تھا کہ کیا نبوت کا دعویٰ تمہارے یہاں اس سے پہلے بھی کسی نے کیا تھا تم نے بتایا کہ ہمارے یہاں ایسا دعویٰ پہلے کسی نے نہیں کیا تھا ، اس سے میں یہ سمجھا کہ اگر اس سے پہلے تمہارے یہاں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہوتا تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ صاحب بھی اسی دعویٰ کی نقل کررہے ہیں جو اس سے پہلے کیا جا چکا ہے ۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان کی طرف جھوٹ منسوب کیا تھا ، تم نے بتایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص جو لوگوں کے متعلق کبھی جھوٹ نہ بول سکا ہو وہ خدا کے متعلق جھوٹ بول دے ۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ تھا ، تم نے بتایا کہ نہیں ۔ میں نے اس سے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ ( نبوت کا دعویٰ کر کے ) وہ اپنے باپ دادا کی سلطنت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، میں نے تم سے دریافت کیا کہ ان کی اتباع قوم کے بڑے لوگ کرتے ہیں یا کمزور اور بے حیثیت لوگ ، تم نے بتایا کہ کمزور غریب قسم کے لوگ ان کی تابعداری کرتے ہیں اور یہی گروہ انبیاء کی ( ہردور میں ) اطاعت کرنے والا رہا ہے ۔ میں نے تم سے پوچھا کہ ان تابعداروں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا گھٹتی بھی ہے ؟ تم نے بتایا کہ وہ لوگ برابر بڑھ ہی رہے ہیں ، ایمان کا بھی یہی حال ہے ، یہاں تک کہ وہ مکمل ہو جائے ، میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد کبھی اس سے پھر بھی گیا ہے ؟ تم نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ، ایمان کا بھی یہی حال ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے تو پھر کوئی چیز اس سے مومن کو ہٹا نہیں سکتی ۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے وعدہ خلافی بھی کی ہے ؟ تم نے اس کا بھی جواب دیا کہ نہیں ، انبیاء کی یہی شان ہے کہ وہ وعدہ خلافی کبھی نہیں کرتے ۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے کبھی ان سے یا انہوں نے تم سے جنگ بھی کی ہے ؟ تم نے بتایا کہ ایسا ہوا ہے اور تمہاری لڑائیوں کا نتیجہ ہمیشہ کسی ایک ہی کے حق میں نہیں گیا ۔ بلکہ کبھی تم مغلوب ہوئے ہو اور کبھی وہ ۔ انبیاء کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے وہ امتحان میں ڈالے جاتے ہیں لیکن انجام انہیں کا بہتر ہوتا ہے ۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ وہ تم کو کن کاموں کا حکم دیتے ہیں ؟ تم نے بتایا کہ وہ ہ میں اس کا حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو اور تمہیں تمہارے ان معبودوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی تمہارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے ۔ تمہیں وہ نماز ، صدقہ ، پاک بازی ، وعدہ وفائی اور اداءامانت کا حکم دیتے ہیں ، اس نے کہا کہ ایک نبی کی یہی صفت ہے میرے بھی علم میں یہ بات تھی کہ وہ نبی مبعوث ہونے والے ہیں ۔ لیکن یہ خیال نہ تھا کہ تم میں سے وہ مبعوث ہوں گے ، جو باتیں تم نے بتائیں اگر وہ صحیح ہیں تو وہ دن بہت قریب ہے جب وہ اس جگہ پر حکمراں ہوں گے جہاں اس وقت میرے دونوں قدم موجود ہیں ، اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کی توقع ہوتی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی پوری کوشش کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں موجود ہوتا تو ان کے پاوں دھوتا ۔ ابو سفیان نے بیان کیا کہ اس کے بعد قیصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک طلب کیا اور وہ اس کے سامنے پڑھا گیا اس میں لکھا ہوا تھا ( ترجمہ ) شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا ہی مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ یہ خط ہے محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف ، اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت قبول کر لے ۔ امابعد میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں ۔ اسلام قبول کرو ، تمہیں بھی سلامتی و امن حاصل ہوگی اور اسلام قبول کرو اللہ تمہیں دہرا اجر دے گا ( ایک تمہارے اپنے اسلام کا اور دوسرا تمہاری قوم کے اسلام کا جو تمہاری وجہ سے اسلام میں داخل ہوگی ) لیکن اگر تم نے اس دعوت سے منھ موڑلیا تو تمہاری رعایا کا گناہ بھی تم پر ہوگا ۔ اور اے اہل کتاب ! ایک ایسے کلمہ پر آ کر ہم سے مل جاو جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہی ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں نہ اسکے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو پروردگار بنائے اب بھی اگر تم منھ موڑتے ہو تو اس کا اقرار کر لو کہ ( اللہ تعالیٰ کا واقعی ) فرمان بردار ہم ہی ہیں ۔ ابو سفیان نے بیان کیا کہ جب ہرقل اپنی بات پوری کر چکا تو روم کے سردار اس کے ارد گرد جمع تھے ، سب ایک ساتھ چیخنے لگے اور شور و غل بہت بڑھ گیا ۔ مجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے تھے ۔ پھر ہ میں حکم دیاگیا اور ہم وہاں سے نکال دئیے گئے ۔ جب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے چلا آیا اور ان کے ساتھ تنہائی ہوئی تو میں نے کہا کہ ابن ابی کبشہ ( مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ) کا معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے ، بنوالا صفر ( رومیوں ) کا بادشاہ بھی اس سے ڈرتا ہے ، ابو سفیان نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! مجھے اسی دن سے اپنی ذلت کا یقین ہوگیا تھا اور برابر اس بات کا بھی یقین رہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ضرور غالب ہوں گے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بھی اسلام داخل کر دیا ۔ حالانکہ ( پہلے ) میں اسلام کو برا جانتا تھا ۔