‌صحيح البخاري - حدیث 2935

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ الدُّعَاءِ عَلَى المُشْرِكِينَ بِالهَزِيمَةِ وَالزَّلْزَلَةِ صحيح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ اليَهُودَ، دَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ، فَلَعَنْتُهُمْ، فَقَالَ: «مَا لَكِ» قُلْتُ: أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ: «فَلَمْ تَسْمَعِي مَا قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2935

کتاب: جہاد کا بیان باب : مشرکین کے لیے شکست اور زلزلے کی بددعا کرنا ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب سختیانی نے ، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہ بعض یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا السام علیکم ( تم پر موت آئے ) میں نے ان پر لعنت بھیجی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی ؟ میں نے کہا کیا انہوں نے ابھی جو کہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سنا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے اس کا کیا جواب دیا ” وعلیکم “ یعنی تم پر بھی وہی آئے ( یعنی میں نے کوئی برا لفظ زبان سے نہیں نکالا صرف ان کی بات ان ہی پر لوٹا دی )
تشریح : اسی لیے نامعقول اور بے ہودی حرکتوں کا جواب یونہی ہونا چاہیے۔ آیت قرآنی ﴿ادفع بالتی ھی احسن﴾(فصلت: ۳۴) کا تقاضا ہے کہ برائی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ یہودی کی فطرت ہمیشہ سے شرپسند رہی ہے۔ خود اپنے انبیاء کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا نہیں رہا تو اور کسی کی کیا حقیقت ہے۔ آنحضرتﷺ کی مخالفت میں یہودیوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی‘ یہاں تک کہ ملاقات کے وقت زبان کو توڑ مروڑ کر السلام علیکم کی جگہ السام علیکم کہہ ڈالتے کہ تم پر موت آئے۔ آنحضرتﷺ نے ان کی اس حرکت پر اطلاع پا کر اتنا ہی کافی سمجھا ’’ وعلیکم‘‘ یعنی تم پر بھی وہی آئے جو میرے لئے منہ سے نکال رہے ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ آپﷺ نے یہود کی اس حرکت کے جواب میں حضرت عائشہؓ کے لعن طعن والے جواب کو پسند نہیں فرمایا بلکہ جو جواب آپﷺ نے دیا‘ اسی کو کافی سمجھا۔ یہ آپ کے کمال اخلاق حسنہ کی دلیل ہے۔(ﷺ) اسی لیے نامعقول اور بے ہودی حرکتوں کا جواب یونہی ہونا چاہیے۔ آیت قرآنی ﴿ادفع بالتی ھی احسن﴾(فصلت: ۳۴) کا تقاضا ہے کہ برائی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ یہودی کی فطرت ہمیشہ سے شرپسند رہی ہے۔ خود اپنے انبیاء کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا نہیں رہا تو اور کسی کی کیا حقیقت ہے۔ آنحضرتﷺ کی مخالفت میں یہودیوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی‘ یہاں تک کہ ملاقات کے وقت زبان کو توڑ مروڑ کر السلام علیکم کی جگہ السام علیکم کہہ ڈالتے کہ تم پر موت آئے۔ آنحضرتﷺ نے ان کی اس حرکت پر اطلاع پا کر اتنا ہی کافی سمجھا ’’ وعلیکم‘‘ یعنی تم پر بھی وہی آئے جو میرے لئے منہ سے نکال رہے ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ آپﷺ نے یہود کی اس حرکت کے جواب میں حضرت عائشہؓ کے لعن طعن والے جواب کو پسند نہیں فرمایا بلکہ جو جواب آپﷺ نے دیا‘ اسی کو کافی سمجھا۔ یہ آپ کے کمال اخلاق حسنہ کی دلیل ہے۔(ﷺ)