كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَا قِيلَ فِي قِتَالِ الرُّومِ صحيح حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الأَسْوَدِ العَنْسِيَّ، حَدَّثَهُ - أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ، وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ - قَالَ: عُمَيْرٌ، فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ: أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا»، قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ؟ قَالَ: «أَنْتِ فِيهِمْ»، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ»، فَقُلْتُ: أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لاَ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : نصاریٰ سے لڑنے کی فضیلت کا بیان
ہم سے اسحاق بن یزید دمشقی نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ثوربن یزید نے بیان کیا ، ان سے خالد بن معدان نے اور ان سے عمیر بن اسود عنسی نے بیان کیا کہ وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ کا قیام ساحل حمص پر اپنے ہی ایک مکان میں تھا اور آپ کے ساتھ ( آپ کی بیوی ) ام حرام رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا ، اس نے ( اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ) واجب کر لی ۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر ( رومیوں کے بادشاہ ) کے شہر ( قسطنطنیہ ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی ۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔
تشریح :
پہلا جہاد حضرت عثمان کے زمانۂ میں (حضرت معاویہ کی قیادت میں) ۲۸ھ میں ہوا جس پر جزیرہ قبرص کے نصاریٰ پر چڑھائی کی گئی‘ اسی میں حضرت ام حرام شریک تھیں‘ واپسی میں یہ راستہ پر سواری سے گر کر شہید ہوگئیں۔ دوسرا جہاد ۵۵ھ میں بزمانہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہوا جس میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اسی میں شہادت پائی اور قسطنطنیہ ہی میں دفن کئے گئے۔ یہ لشکر یزید بن معاویہ کے زیر قیادت تھا۔ مگر خلافت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کی تھی اس لئے اس سے یزید کی خلافت کی صحت پر دلیل پکڑنا غلط ہوا اور لشکر والوں کی بخشش کی جو بشارت دی گئی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ لشکر کا ہر ہر فرد بخشا جائے۔ خود آنحضرتﷺ کے ساتھ ایک آدمی خوب بہادری سے لڑا تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ وہ دوزخی ہے پس بہشتی اور دوزخی ہونے میں خاتمہ کا اعتبار ہے۔ (وحیدی(
نوٹ: یہاں علامہ وحید الزماں کو ایک زبردست غلط فہمی ہوئی ہے۔ اور نبیﷺ کی پیشین گوئی کی بے جا تاویل کر ڈالی ہے۔ حالانکہ نبی ﷺ کو کہی ہوئی بات حرف بحرف پوری ہوتی ہے۔ نبیﷺ کے ساتھ جو لشکر لڑ رہا تھا‘ ان سب کے جنتی ہونے کی پیشین گوئی آپ نے نہیں فرمائی تھی اور اس کے برعکس قسطنطنیہ کے سارے لشکریوں کے جنتی ہونے کی آپﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو محدود کرنے کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ (محمود الحسن اسد(
پہلا جہاد حضرت عثمان کے زمانۂ میں (حضرت معاویہ کی قیادت میں) ۲۸ھ میں ہوا جس پر جزیرہ قبرص کے نصاریٰ پر چڑھائی کی گئی‘ اسی میں حضرت ام حرام شریک تھیں‘ واپسی میں یہ راستہ پر سواری سے گر کر شہید ہوگئیں۔ دوسرا جہاد ۵۵ھ میں بزمانہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہوا جس میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اسی میں شہادت پائی اور قسطنطنیہ ہی میں دفن کئے گئے۔ یہ لشکر یزید بن معاویہ کے زیر قیادت تھا۔ مگر خلافت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کی تھی اس لئے اس سے یزید کی خلافت کی صحت پر دلیل پکڑنا غلط ہوا اور لشکر والوں کی بخشش کی جو بشارت دی گئی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ لشکر کا ہر ہر فرد بخشا جائے۔ خود آنحضرتﷺ کے ساتھ ایک آدمی خوب بہادری سے لڑا تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ وہ دوزخی ہے پس بہشتی اور دوزخی ہونے میں خاتمہ کا اعتبار ہے۔ (وحیدی(
نوٹ: یہاں علامہ وحید الزماں کو ایک زبردست غلط فہمی ہوئی ہے۔ اور نبیﷺ کی پیشین گوئی کی بے جا تاویل کر ڈالی ہے۔ حالانکہ نبی ﷺ کو کہی ہوئی بات حرف بحرف پوری ہوتی ہے۔ نبیﷺ کے ساتھ جو لشکر لڑ رہا تھا‘ ان سب کے جنتی ہونے کی پیشین گوئی آپ نے نہیں فرمائی تھی اور اس کے برعکس قسطنطنیہ کے سارے لشکریوں کے جنتی ہونے کی آپﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو محدود کرنے کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ (محمود الحسن اسد(