‌صحيح البخاري - حدیث 2915

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَا قِيلَ فِي دِرْعِ النَّبِيِّ ﷺ وَالقَمِيصِ فِي الحَرْبِ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ فِي قُبَّةٍ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ اليَوْمِ» فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ: حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ وَهُوَ فِي الدِّرْعِ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُولُ: {سَيُهْزَمُ الجَمْعُ، وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ، وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ} [القمر: 46]، وَقَالَ وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، يَوْمَ بَدْرٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2915

کتاب: جہاد کا بیان باب : آنحضرت ﷺ کا لڑائی میں زرہ پہننا ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا ، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( بدر کے دن ) دعا فرما رہے تھے ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ میں تشریف فرما تھے ، کہ اے اللہ ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دے کر فریاد کرتا ہوں ۔ اے اللہ ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا بس کیجئے اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حضور میں دعا کی حد کردی ہے ۔ آنحضرت اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی ( ترجمہ ) ” جماعت ( مشرکین ) جلد ہی شکست کھا کر بھاگ جائی گی اور پیٹھ دکھانا اختیار کرے گی اور قیامت کے دن کا ان سے وعدہ ہے اور قیامت کا دن بڑا ہی بھیانک اور تلخ ہو گا “ اور وہیب نے بیان کیا ، ان سے خالد نے بیان کیا کہ بدر کے دن کا ( یہ واقعہ ہے )
تشریح : : یعنی اے اللہ! آج تو اپنا وعدہ اپنے فضل و کرم سے پورا کردے۔ وعدہ یہ تھا کہ یا تو قافلہ آئے گا یا کافروں پر فتح ہوگی۔ آنحضرت ﷺ کو اللہ کے وعدہ پر کامل بھروسہ تھا۔ مگر مسلمانوں کی بے سرو سامانی اور قلت اور کافروں کی کثرت کو دیکھ کر بہ مقتضائے بشریت آپ نے فرمایا لم نعبد بعد الیوم کا مطلب یہ کہ دنیا میں آج تیرے خالص پوجنے والے یہی تین سو تیرہ آدمی ہیں‘ اگر تو ان کو بھی ہلاک کردے گا تو تیری مرضی۔ چونکہ میرے بعد پھر کوئی پیغمبر آنے والا نہیں تو قیامت تک شرک ہی شرک رہے گا اور تجھے کوئی نہ پوجے گا۔ اللہ نے اپنے پیارے نبی کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور بدر میں کافروں کو وہ شکست دی کہ آئندہ کے لئے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور اہل اسلام کی ترقی کے راستے کھل گئے۔ حدیث ہذا سے میدان جنگ میں زرہ پہننا ثابت ہوا۔ آج کل مشینی دور ہے لہٰذا میدان جنگ کے بھی قدیم اطوار بدل گئے ہیں۔ : یعنی اے اللہ! آج تو اپنا وعدہ اپنے فضل و کرم سے پورا کردے۔ وعدہ یہ تھا کہ یا تو قافلہ آئے گا یا کافروں پر فتح ہوگی۔ آنحضرت ﷺ کو اللہ کے وعدہ پر کامل بھروسہ تھا۔ مگر مسلمانوں کی بے سرو سامانی اور قلت اور کافروں کی کثرت کو دیکھ کر بہ مقتضائے بشریت آپ نے فرمایا لم نعبد بعد الیوم کا مطلب یہ کہ دنیا میں آج تیرے خالص پوجنے والے یہی تین سو تیرہ آدمی ہیں‘ اگر تو ان کو بھی ہلاک کردے گا تو تیری مرضی۔ چونکہ میرے بعد پھر کوئی پیغمبر آنے والا نہیں تو قیامت تک شرک ہی شرک رہے گا اور تجھے کوئی نہ پوجے گا۔ اللہ نے اپنے پیارے نبی کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور بدر میں کافروں کو وہ شکست دی کہ آئندہ کے لئے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور اہل اسلام کی ترقی کے راستے کھل گئے۔ حدیث ہذا سے میدان جنگ میں زرہ پہننا ثابت ہوا۔ آج کل مشینی دور ہے لہٰذا میدان جنگ کے بھی قدیم اطوار بدل گئے ہیں۔