كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَا قِيلَ فِي الرِّمَاحِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي [ص:41] قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ طَرِيقِ مَكَّةَ، تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ، وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَرَأَى حِمَارًا وَحْشِيًّا، فَاسْتَوَى عَلَى فَرَسِهِ، فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ، فَأَبَوْا، فَسَأَلَهُمْ رُمْحَهُ فَأَبَوْا، فَأَخَذَهُ، ثُمَّ شَدَّ عَلَى الحِمَارِ، فَقَتَلَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَى بَعْضٌ، فَلَمَّا أَدْرَكُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: «إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ»، وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ: فِي الحِمَارِ الوَحْشِيِّ، مِثْلُ حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ قَالَ: هَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْءٌ؟
کتاب: جہاد کا بیان
باب : بھالوں ( نیزوں ) کا بیان
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبردی ، انہیں عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ ابوالنضر نے اور انہیں ابوقتادہ انصاری کے مولیٰ نافع نے اور انہیں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ( صلح حدیبیہ کے موقع پر ) مکہ کے راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے ، لشکر سے پیچھے رہ گئے ۔ خود قتادہ رضی اللہ عنہ نے ابھی احرام نہیں باندھا تھا ۔ پھر انہوں نے ایک گورخر دیکھا اور اپنے گھوڑے پر ( شکار کرنے کی نیت سے ) سوار ہو گئے ، اس کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں سے ( جو احرام باندھے ہوئے تھے ) کہا کہ کوڑا اٹھادیں انہوں نے اس سے انکار کیا ، پھر انہوں نے اپنا نیزہ مانگا اس کے دینے سے انہوں نے انکار کیا ، آخر انہوں نے خود اسے اٹھایا اور گورخر پر جھپٹ پڑے اور اسے مارلیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض نے تو اس گورخر کا گوشت کھایا اور بعض نے اس کے کھانے سے ( احرام کے عذر کی بنا پر ) انکار کیا ۔ پھر جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو اس کے متعلق مسئلہ پوچھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ایک کھانے کی چیز تھی جو اللہ نے تمہیں عطا کی ۔ اور زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے گورخر کے ( شکار سے ) متعلق ابوالنضر ہی کی حدیث کی طرح ( البتہ اس روایت میں یہ زائد ہے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اس کا کچھ بچا ہوا گوشت ابھی تمہارے پا س موجود ہے ؟
تشریح :
اس حدیث میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کا نیزوں سے مسلح ہونا مذکور ہے‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کا مقصد یہ کہ مسلمان کے لئے یہ امر باعث فخر ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کا سپاہی ہے ہر حال میں سپاہیانہ زندگی گزارنا یہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ صد افسوس کہ عام اہل اسلام بلکہ خواص تک ان حقائق اسلام سے حد درجہ غافل ہوگئے ہیں۔ علمائے ظواہر صرف فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئے اور حقائق اسلام نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئے جس کی سزا سارے مسلمان عام طور پر غلامانہ زندگی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ الا من شاء اللہ
اس حدیث میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کا نیزوں سے مسلح ہونا مذکور ہے‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کا مقصد یہ کہ مسلمان کے لئے یہ امر باعث فخر ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کا سپاہی ہے ہر حال میں سپاہیانہ زندگی گزارنا یہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ صد افسوس کہ عام اہل اسلام بلکہ خواص تک ان حقائق اسلام سے حد درجہ غافل ہوگئے ہیں۔ علمائے ظواہر صرف فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئے اور حقائق اسلام نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئے جس کی سزا سارے مسلمان عام طور پر غلامانہ زندگی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ الا من شاء اللہ