‌صحيح البخاري - حدیث 2912

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ كَسْرَ السِّلاَحِ عِنْدَ المَوْتِ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الحَارِثِ، قَالَ: «مَا تَرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا سِلاَحَهُ، وَبَغْلَةً بَيْضَاءَ، وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2912

کتاب: جہاد کا بیان باب : کسی کی موت پر اس کے ہتھیار وغیرہ توڑنے درست نہیں ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا ، ان سے سفیان ثوری نے ، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے عمروبن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( وفات کے بعد ) اپنے ہتھیار ایک سفید خچر اور ایک قطعہ اراضی جسے آپ پہلے ہی صدقہ کرچکے تھے کے سوا اور کوئی چیز نہیں چھوڑی تھی ۔
تشریح : عرب جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ جب کسی قبیلہ کا سردار یا قبیلہ کا کوئی بہادر مر جاتا تو اس کے ہتھیار توڑ دئیے جاتے‘ یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ اب ان ہتھیاروں کا حقیقی معنوں میں کوئی اٹھانے والا باقی نہیں رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام میں ایسا عمل ہرگز جائز نہیں۔ رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد آپﷺ کے ہتھیار وغیرہ سب باقی رکھے گئے۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا امام بخاریؒ نے یہ باب لا کر اشارہ کیا کہ شریعت اسلامی میں یہ کام منع ہے کیونکہ اس میں عمل کا ضائع کرنا ہے۔ عرب جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ جب کسی قبیلہ کا سردار یا قبیلہ کا کوئی بہادر مر جاتا تو اس کے ہتھیار توڑ دئیے جاتے‘ یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ اب ان ہتھیاروں کا حقیقی معنوں میں کوئی اٹھانے والا باقی نہیں رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام میں ایسا عمل ہرگز جائز نہیں۔ رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد آپﷺ کے ہتھیار وغیرہ سب باقی رکھے گئے۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا امام بخاریؒ نے یہ باب لا کر اشارہ کیا کہ شریعت اسلامی میں یہ کام منع ہے کیونکہ اس میں عمل کا ضائع کرنا ہے۔