‌صحيح البخاري - حدیث 29

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابُ كُفْرَانِ العَشِيرِ، وَكُفْرٍ دُونَ كُفْرٍ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ، يَكْفُرْنَ» قِيلَ: أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ؟ قَالَ: يَكْفُرْنَ العَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الإِحْسَانَ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 29

کتاب: ایمان کے بیان میں باب:خاوند کی ناشکری کے بیان میں اور ایک کفر کا (اپنے درجہ میں) اس حدیث کو ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، وہ امام مالک سے، وہ زید بن اسلم سے، وہ عطاء بن یسار سے، وہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ کہا گیا حضور کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔
تشریح : حضرت امام المحدثین قدس سرہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ کفر دوطرح کا ہوتا ہے ایک تو کفرحقیقی ہے جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔ مگریہ کفر حقیقی سے کم ہے۔ ابو سعید والی حدیث کتاب الحیض میں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا اور فرمایاکہ میں نے دوزخ میں زیادہ تر تم کو دیکھا ہے۔ انھوں نے پوچھا کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اور خاوند کا کفر یعنی ناشکری کرتی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث بڑی لمبی ہے۔ جو بخاری کی کتاب الکسوف میں ہے، یہاں استدلال کے لیے حضرت امام نے اس کا ایک ٹکڑا ذکر کردیا ہے۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفی ہذاالحدیث وعظ الرئیس المروس وتحریضہ علی الطاعۃ ومراجعۃ المتعلم العالم والتابع المتبوع فیماقالہ اذا لم یظہر لہ معناہ الخ معنی اس حدیث کے تحت ضروری ہوا کہ سردار اپنے ماتحوں کو وعظ ونصیحت کرے اور نیکی کے لیے ان کو رغبت دلائے اور اس سے یہ بھی نکلا کہ شاگرد اگر استاد کی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائے تو استاد سے دوبارہ دریافت کرلے اور اس حدیث سے ناشکری پر بھی کفر کا اطلاق ثابت ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معاصی سے ایمان گھٹ جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاصی کو بھی کفر قرار دیا گیا ہے مگر وہ کفر نہیں ہے جس کے ارتکاب سے دوزخ میں ہمیشہ رہنا لازم آتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کا ایمان جیسے خاوند کی ناشکری سے گھٹ جاتا ہے، ویسے ہی ان کی شکر گزاری سے بڑھ بھی جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔ حضرت امام نے کفردون کفر کا ٹکڑا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے لیا ہے جو آپ نے آیت کریمہ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الکافرون ( المائدۃ: 44 ) کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ ( اور جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے سوایسے لوگ کافر ہیں ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وہ کفر مراد نہیں ہے جس کی سزا خلود فی النار ہے۔ اس لیے علماءمحققین نے کفر کو چار قسمو ں پر تقسیم کیا ہے ( 1 ) کفربالکل انکار کے معنی میں ہے، یعنی اللہ پاک کا بالکل انکار کرنا اس کا وجود ہی نہ تسلیم کرنا، قرآن مجید میں زیادہ تر ایسے ہی کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔ ( 2 ) کفرجحود ہے یعنی اللہ کو دل سے حق جاننا مگر اپنے دنیاوی مفاد کے لیے زبان سے اقرار بھی نہ کرنا، مشرکین مکہ میں سے بعض کا ایسا ہی کفرتھا، آج بھی ایسے بہت لوگ ملتے ہیں۔ ( 3 ) کفرعناد ہے یعنی دل میں تصدیق کرنا زبان سے اقرار بھی کرنا مگر احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرنا اور توحید ورسالت کے اسلامی عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہونا، ماضی وحال میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ ( 4 ) کفرنفاق ہے یعنی زبان سے اقرار کرنا مگر دل میں یقین نہ کرنا جیسا کہ آیت شریف واذا قیل لہم آمنوا کما آمن الناس قالوا انومن کما آمن السفہآء ( البقرۃ: 13 ) میں مذکو رہے۔ ( یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ) جب ان سے کہا جائے کہ تم ایسا پختہ ایمان لاؤ جیسا کہ دوسرے لوگ ( انصار ومہاجرین ) لائے ہوئے ہیں توجواب میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی بے وقوفوں جیسا ایمان لے آئیں۔ یاد رکھو یہی ( منافق ) بے قوف ہیں۔ لیکن ان کو علم نہیں ہے۔ حضرت امام المحدثین قدس سرہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ کفر دوطرح کا ہوتا ہے ایک تو کفرحقیقی ہے جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔ مگریہ کفر حقیقی سے کم ہے۔ ابو سعید والی حدیث کتاب الحیض میں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا اور فرمایاکہ میں نے دوزخ میں زیادہ تر تم کو دیکھا ہے۔ انھوں نے پوچھا کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اور خاوند کا کفر یعنی ناشکری کرتی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث بڑی لمبی ہے۔ جو بخاری کی کتاب الکسوف میں ہے، یہاں استدلال کے لیے حضرت امام نے اس کا ایک ٹکڑا ذکر کردیا ہے۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفی ہذاالحدیث وعظ الرئیس المروس وتحریضہ علی الطاعۃ ومراجعۃ المتعلم العالم والتابع المتبوع فیماقالہ اذا لم یظہر لہ معناہ الخ معنی اس حدیث کے تحت ضروری ہوا کہ سردار اپنے ماتحوں کو وعظ ونصیحت کرے اور نیکی کے لیے ان کو رغبت دلائے اور اس سے یہ بھی نکلا کہ شاگرد اگر استاد کی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائے تو استاد سے دوبارہ دریافت کرلے اور اس حدیث سے ناشکری پر بھی کفر کا اطلاق ثابت ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معاصی سے ایمان گھٹ جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاصی کو بھی کفر قرار دیا گیا ہے مگر وہ کفر نہیں ہے جس کے ارتکاب سے دوزخ میں ہمیشہ رہنا لازم آتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کا ایمان جیسے خاوند کی ناشکری سے گھٹ جاتا ہے، ویسے ہی ان کی شکر گزاری سے بڑھ بھی جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔ حضرت امام نے کفردون کفر کا ٹکڑا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے لیا ہے جو آپ نے آیت کریمہ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الکافرون ( المائدۃ: 44 ) کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ ( اور جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے سوایسے لوگ کافر ہیں ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وہ کفر مراد نہیں ہے جس کی سزا خلود فی النار ہے۔ اس لیے علماءمحققین نے کفر کو چار قسمو ں پر تقسیم کیا ہے ( 1 ) کفربالکل انکار کے معنی میں ہے، یعنی اللہ پاک کا بالکل انکار کرنا اس کا وجود ہی نہ تسلیم کرنا، قرآن مجید میں زیادہ تر ایسے ہی کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔ ( 2 ) کفرجحود ہے یعنی اللہ کو دل سے حق جاننا مگر اپنے دنیاوی مفاد کے لیے زبان سے اقرار بھی نہ کرنا، مشرکین مکہ میں سے بعض کا ایسا ہی کفرتھا، آج بھی ایسے بہت لوگ ملتے ہیں۔ ( 3 ) کفرعناد ہے یعنی دل میں تصدیق کرنا زبان سے اقرار بھی کرنا مگر احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرنا اور توحید ورسالت کے اسلامی عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہونا، ماضی وحال میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ ( 4 ) کفرنفاق ہے یعنی زبان سے اقرار کرنا مگر دل میں یقین نہ کرنا جیسا کہ آیت شریف واذا قیل لہم آمنوا کما آمن الناس قالوا انومن کما آمن السفہآء ( البقرۃ: 13 ) میں مذکو رہے۔ ( یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ) جب ان سے کہا جائے کہ تم ایسا پختہ ایمان لاؤ جیسا کہ دوسرے لوگ ( انصار ومہاجرین ) لائے ہوئے ہیں توجواب میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی بے وقوفوں جیسا ایمان لے آئیں۔ یاد رکھو یہی ( منافق ) بے قوف ہیں۔ لیکن ان کو علم نہیں ہے۔