كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ لاَ يَقُولُ فُلاَنٌ شَهِيدٌ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، التَقَى هُوَ وَالمُشْرِكُونَ، فَاقْتَتَلُوا، فَلَمَّا مَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَسْكَرِهِ، وَمَالَ الآخَرُونَ إِلَى عَسْكَرِهِمْ، وَفِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، لاَ يَدَعُ لَهُمْ شَاذَّةً وَلاَ فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا يَضْرِبُهَا بِسَيْفِهِ، فَقَالَ: مَا أَجْزَأَ مِنَّا اليَوْمَ أَحَدٌ كَمَا أَجْزَأَ فُلاَنٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ»، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ: أَنَا صَاحِبُهُ، قَالَ: فَخَرَجَ مَعَهُ كُلَّمَا وَقَفَ وَقَفَ مَعَهُ، وَإِذَا أَسْرَعَ أَسْرَعَ مَعَهُ، قَالَ: فَجُرِحَ الرَّجُلُ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ المَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ بِالأَرْضِ، وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَى سَيْفِهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ؟» قَالَ: الرَّجُلُ الَّذِي ذَكَرْتَ آنِفًا أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: أَنَا لَكُمْ بِهِ، فَخَرَجْتُ فِي طَلَبِهِ، ثُمَّ جُرِحَ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ المَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ فِي الأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: «إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الجَنَّةِ، فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شخص شہید ہے
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا ، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ( اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں ) مشرکین سے مڈبھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر ) اپنے پڑاو کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاو کی طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا ، لڑائی لڑنے میں ان کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر پڑجاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کردیتا ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنی سرگرمی کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے ، ہم میں سے کوئی بھی شخص اس طرح نہ لڑسکا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ لیکن وہ شخص دوزخی ہے ۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے ( اپنے دل میں کہا اچھا میں اس کا پیچھا کروں گا ( دیکھوں ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیوں دوزخی فرمایا ہے ) بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائی میں موجود رہا ، جب کبھی وہ کھڑا ہوجاتا تو یہ بھی کھڑا ہوجاتا اور جب وہ تیز چلتا تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا ۔ بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہو گیا زخم بڑا گہرا تھا ۔ اس لیے اس نے چاہا کہ موت جلدی آ جائے اور اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلہ میں کر لیا اور تلوار پر گر کر اپنی جان دے دی ۔ اب وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی ؟ انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر یہ آپ کا فرمان بڑا شاق گزرا تھا ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں ۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے ہو لیا ۔ اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے ۔ اس لیے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کرلیا اور اس پر گر کر خود جان دے دی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے ۔
تشریح :
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ ظاہر میں وہ شخص میدان جہاد میں بہت بڑا مجاہد معلوم ہو رہا تھا مگر قسمت میں دوزخ لکھی ہوئی تھی‘ جس کے لئے نبی کریمﷺ نے وحی اور الہام کے ذریعہ معلوم کرکے فرما دیا تھا۔ آخر وہی ہوا کہ خودکشی کرکے حرام موت کا شکار ہوا اور دوزخ میں داخل ہوا۔ انجام کا فکر ہر وقت ضروری ہے۔ اللہ پاک راقم الحروف اور جملہ قارئین کرام کو خاتمہ بالخیر نصیب فرمائے۔ آمین
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ ظاہر میں وہ شخص میدان جہاد میں بہت بڑا مجاہد معلوم ہو رہا تھا مگر قسمت میں دوزخ لکھی ہوئی تھی‘ جس کے لئے نبی کریمﷺ نے وحی اور الہام کے ذریعہ معلوم کرکے فرما دیا تھا۔ آخر وہی ہوا کہ خودکشی کرکے حرام موت کا شکار ہوا اور دوزخ میں داخل ہوا۔ انجام کا فکر ہر وقت ضروری ہے۔ اللہ پاک راقم الحروف اور جملہ قارئین کرام کو خاتمہ بالخیر نصیب فرمائے۔ آمین