‌صحيح البخاري - حدیث 2893

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَنْ غَزَا بِصَبِيٍّ لِلْخِدْمَةِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِأَبِي طَلْحَةَ: «التَمِسْ غُلاَمًا مِنْ غِلْمَانِكُمْ يَخْدُمُنِي حَتَّى أَخْرُجَ إِلَى خَيْبَرَ» فَخَرَجَ بِي أَبُو طَلْحَةَ مُرْدِفِي، وَأَنَا غُلاَمٌ رَاهَقْتُ الحُلُمَ، فَكُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا نَزَلَ، فَكُنْتُ أَسْمَعُهُ كَثِيرًا يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ، وَالعَجْزِ وَالكَسَلِ، وَالبُخْلِ وَالجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ» ثُمَّ قَدِمْنَا خَيْبَرَ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الحِصْنَ، ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ، وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا، وَكَانَتْ عَرُوسًا، فَاصْطَفَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ، فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغْنَا سَدَّ الصَّهْبَاءِ، حَلَّتْ فَبَنَى بِهَا، ثُمَّ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ صَغِيرٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «آذِنْ مَنْ حَوْلَكَ». فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَفِيَّةَ، ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى المَدِينَةِ قَالَ: فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَوِّي لَهَا وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ، ثُمَّ يَجْلِسُ عِنْدَ بَعِيرِهِ، فَيَضَعُ رُكْبَتَهُ، فَتَضَعُ صَفِيَّةُ رِجْلَهَا عَلَى رُكْبَتِهِ حَتَّى تَرْكَبَ، فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى المَدِينَةِ نَظَرَ إِلَى أُحُدٍ فَقَالَ: «هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ» ثُمَّ نَظَرَ إِلَى المَدِينَةِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا بِمِثْلِ مَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ وَصَاعِهِمْ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2893

کتاب: جہاد کا بیان باب : اگر کسی بچے کو خدمت کے لیے جہاد میں ساتھ لے جائے ہم سے قتیبہ بن سعید نے کہا ، ہم سے بعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن عمرو نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اپنے بچوں میں سے کوئی بچہ میرے ساتھ کردو جو خیبر کے غزوے میں میرے کام کردیا کرے ، جب کہ میں خیبر کا سفر کروں ۔ ابوطلحہ اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر مجھے ( انس رضی اللہ عنہ کو ) لے گئے ، میں اس وقت ابھی لڑکا تھا ۔ بالغ ہونے کے قریب ۔ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہیں قیام فرماتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا ۔ اکثر میں سنتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم ، عاجزی ، سستی ، بخل ، بزدلی ، قرض داری کے بوجھ اور ظالم کے اپنے اوپر غلبہ سے ، آخر ہم خیبر پہنچے اور جب اللہ تعالیٰ نے خیبر کے قلعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا کے جمال ( ظاہری و باطنی ) کا ذکر کیا گیا ان کا شوہر ( یہودی ) لڑائی میں کام آگیا تھا اور وہ ابھی دلہن ہی تھیں ( اور چونکہ قبیلہ کے سردار کی لڑکی تھیں ) اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کا اکرام کرنے کے لیے کہا ) انہیں اپنے لیے پسند فرمالیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر وہاں سے چلے ۔ جب ہم سداالصبہاءپر پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہوئیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خلوت کی ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیس ( کھجور ، پنیر اور گھی سے تیار کیا ہوا ایک کھانا ) تیار کراکر ایک چھوٹے سے دسترخوان پر رکھوایا اور مجھ سے فرمایا کہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو دعوت دے دو اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کا ولیمہ تھا ۔ آخر ہم مدینہ کی طرف چلے ، انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صفیہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے اپنے پیچھی ( اونٹ کے کوہان کے ارد گرد ) اپنی عباءسے پردہ کئے ہوئے تھے ( سواری پر جب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ سوار ہوتیں ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ جاتے اور اپنا گھٹنا کھڑا رکھتے اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اپنا پاوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے پر رکھ کر سوار ہوجاتیں ۔ اس طرح ہم چلتے رہے اور جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ کو دیکھا اور فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا اے اللہ ! میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کے خطے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کو حرمت والا قرار دیا تھا اے اللہ ! مدینہ کے لوگوں کو ان کی مد اور صاع میں برکت دیجیؤ !
تشریح : رسول کریمﷺ نے غزوۂ خیبر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو خدمت کے لیے ساتھ رکھا جو ابھی نابالغ تھے‘ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ اسی لڑائی میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کے حرم میں داخل ہوئیں جو ایک خاندانی خاتون تھیں اس رشتہ سے اہل سلام کو بہت سے علمی فوائد حاصل ہوئے۔ روایت ہذا میں ایک دعائے مسنونہ بھی مذکور ہوئی ہے جو بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جس کا یاد کرنا اور دعاؤں میں اسے پڑھتے رہنا بہت سے امور دینی اور دنیاوی کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے تفصیلی حالات پیچھے مذکور ہوچکے ہیں اسی حدیث سے مدینہ منورہ کا بھی مثل مکہ شریف حرم ثابت ہوا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ پہلے ہی سے آپ کی خدمت میں تھے مگر سفر میں ان کا پہلا موقع تھا کہ خدمت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ دعاء مسنونہ میں لفظ ھم اور حزن ہم معنی ہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ھم وہ فکر جو واقع نہیں ہوا لیکن وقوع کا خطرہ ہے‘ حزن وہ غم و فکر جو واقع ہوچکا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں پہلے ہی تھے مگر اس موقع پر بھی ان کو ہمراہ لیا گیا ان کی مدت خدمت نو سال ہے‘ احد پہاڑ کے لیے جو آپﷺ نے فرمایا وہ حقیقت پر مبنی ہے ﴿ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدِیْرٌ﴾ (البقرۃ: ۲۰) رسول کریمﷺ نے غزوۂ خیبر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو خدمت کے لیے ساتھ رکھا جو ابھی نابالغ تھے‘ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ اسی لڑائی میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کے حرم میں داخل ہوئیں جو ایک خاندانی خاتون تھیں اس رشتہ سے اہل سلام کو بہت سے علمی فوائد حاصل ہوئے۔ روایت ہذا میں ایک دعائے مسنونہ بھی مذکور ہوئی ہے جو بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جس کا یاد کرنا اور دعاؤں میں اسے پڑھتے رہنا بہت سے امور دینی اور دنیاوی کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے تفصیلی حالات پیچھے مذکور ہوچکے ہیں اسی حدیث سے مدینہ منورہ کا بھی مثل مکہ شریف حرم ثابت ہوا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ پہلے ہی سے آپ کی خدمت میں تھے مگر سفر میں ان کا پہلا موقع تھا کہ خدمت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ دعاء مسنونہ میں لفظ ھم اور حزن ہم معنی ہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ھم وہ فکر جو واقع نہیں ہوا لیکن وقوع کا خطرہ ہے‘ حزن وہ غم و فکر جو واقع ہوچکا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں پہلے ہی تھے مگر اس موقع پر بھی ان کو ہمراہ لیا گیا ان کی مدت خدمت نو سال ہے‘ احد پہاڑ کے لیے جو آپﷺ نے فرمایا وہ حقیقت پر مبنی ہے ﴿ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدِیْرٌ﴾ (البقرۃ: ۲۰)