‌صحيح البخاري - حدیث 2881

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ حَمْلِ النِّسَاءِ القِرَبَ إِلَى النَّاسِ فِي الغَزْوِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ ثَعْلَبَةُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ: إِنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَسَمَ مُرُوطًا بَيْنَ نِسَاءٍ مِنْ نِسَاءِ المَدِينَةِ، فَبَقِيَ مِرْطٌ جَيِّدٌ، فَقَالَ لَهُ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، أَعْطِ هَذَا ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي عِنْدَكَ، يُرِيدُونَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ، فَقَالَ عُمَرُ: «أُمُّ سَلِيطٍ أَحَقُّ، وَأُمُّ سَلِيطٍ مِنْ نِسَاءِ الأَنْصَارِ، مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» [ص:34]، قَالَ عُمَرُ: «فَإِنَّهَا كَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا القِرَبَ يَوْمَ أُحُدٍ»، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: تَزْفِرُ: تَخِيطُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2881

کتاب: جہاد کا بیان باب : جہاد میں عورتوں کا مردوں کے پاس مشکیزہ اٹھا کر لے جانا ہم سے عبدان نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن مباک نے خبردی ، کہا ہم کو یونس نے خبردی ، انہیں ابن شہاب نے ، ان سے ثعلبہ بن ابی مالک نے کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں ۔ ایک نئی چادر بچ گئی تو بعض حضرات نے جو آپ کے پاس ہی تھے کہا یا امیرالمؤمنین ! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو دے دیجئے ، جو آپ کے گھر میں ہیں ۔ ان کی مراد ( آپ کی بیوی ) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ سے تھی لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط رضی اللہ عنہا اس کی زیادہ مستحق ہیں ۔ یہ ام سلیط رضی اللہ عنہا ان انصاری خواتین میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ احد کی لڑائی کے موقع پر ہمارے لیے مشکیزے ( پانی کے ) اٹھاکر لاتی تھیں ۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا ( حدیث میں ) لفظ تزفر کا معنی یہ ہے کہ سیتی تھی ۔
تشریح : تزفر کا معنی سینے سے کرنا صحیح نہیں ہے‘ صحیح معنی یہ ہے کہ اٹھا کر لاتی تھی۔ قسطلانی نے کہا امام بخاریؒ نے یہ معنی ابو صالح کاتب لیث کی تقلید سے نقل کردیا۔ حضرت عمرؓ کا عدل و انصاف یہاں سے معلوم کرنا چاہئے۔ یہ چادر آپ اپنی بیوی ام کلثوم کو دے دیتے مگر صرف اس خیال سے نہ دی کہ وہ ان کی بیوی تھیں اور غیر کو جس کا حق زیادہ تھا مقدم کیا۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔ تزفر کا معنی سینے سے کرنا صحیح نہیں ہے‘ صحیح معنی یہ ہے کہ اٹھا کر لاتی تھی۔ قسطلانی نے کہا امام بخاریؒ نے یہ معنی ابو صالح کاتب لیث کی تقلید سے نقل کردیا۔ حضرت عمرؓ کا عدل و انصاف یہاں سے معلوم کرنا چاہئے۔ یہ چادر آپ اپنی بیوی ام کلثوم کو دے دیتے مگر صرف اس خیال سے نہ دی کہ وہ ان کی بیوی تھیں اور غیر کو جس کا حق زیادہ تھا مقدم کیا۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔