‌صحيح البخاري - حدیث 2870

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ غَايَةِ السَّبْقِ لِلْخَيْلِ المُضَمَّرَةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَابَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الخَيْلِ الَّتِي قَدْ أُضْمِرَتْ، فَأَرْسَلَهَا مِنَ الحَفْيَاءِ، وَكَانَ أَمَدُهَا ثَنِيَّةَ الوَدَاعِ - فَقُلْتُ لِمُوسَى: فَكَمْ كَانَ بَيْنَ ذَلِكَ؟ قَالَ: سِتَّةُ [ص:32] أَمْيَالٍ أَوْ سَبْعَةٌ - وَسَابَقَ بَيْنَ الخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ، فَأَرْسَلَهَا مِنْ ثَنِيَّةِ الوَدَاعِ وَكَانَ أَمَدُهَا مَسْجِدَ بَنِي زُرَيْقٍ قُلْتُ: فَكَمْ بَيْنَ ذَلِكَ؟ قَالَ: مِيلٌ أَوْ نَحْوُهُ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ مِمَّنْ سَابَقَ فِيهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2870

کتاب: جہاد کا بیان باب : تیار کئے ہوئے گھوڑوں کی دوڑ کی حد کہاں تک ہو ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے معاویہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسحاق نے ، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے ، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی جنہیں تیار کیا گیاتھا ۔ یہ دوڑ مقام حفیاءسے شروع کرائی اور ثنیۃ الوداع اس کی آخری حد تھی ( ابواسحاق راوی نے بیان کیا کہ ) میں نے ابوموسیٰ سے پوچھا اس کا فاصلہ کتنا تھا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ چھ یا سات میل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی بھی دوڑ کرائی جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا ۔ ایسے گھوڑوں کی دوڑ ثنیۃ الوداع سے شروع ہوئی اور حد مسجد بنی زریق تھی ۔ میں نے پوچھا اس میں کتنا فاصلہ تھا ؟ انہوں نے کہا کہ تقریباً ایک میل ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی دوڑ میں شرکت کرنے والوں میں تھے ۔
تشریح : حضرت امام بخاری کا مقصد باب یہ ہے کہ اضمار شدہ گھوڑوں کی دوڑ کی حد چھ یا سات میل ہے جیسا کہ مقام حفیاء اور ثنیۃ الوداع کا فاصلہ ہے اور غیر اضمار شدہ کی حد تقریباً ایک میل جو ثنیۃ الوداع اور مسجد بنو زریق کی حد تھی۔ ایک متمدن حکومت کے لئے اس مشینی دور میں بھی گھوڑے کی بڑی اہمیت ہے۔ عربی نس کے گھوڑے جو فوقیت رکھتے ہیں وہ محتاج تشریح نہیں۔ زمانۂ رسالت میں گھوڑوں کو سدھانے کے لیے یہ مقابلہ کی دوڑ ہوا کرتی تھی مگر آج کل ریس کی دوڑ جو آج عام طور پر شہروں میں کرائی جاتی ہے اور گھوڑوں پر بڑی بڑی رقوم بطور جوئے بازی کے لگائی جاتی ہیں یہ کھلا ہوا جوا ہے جو شرعاً قطعاً حرام ہے اور کسی پر مخفی نہیں۔ صد افسوس کہ عام مسلمانوں نے آج کل حلال و حرام کی تمیز ختم کردی ہے اور کتنے ہی مسلمان ان میں حصہ لیتے ہیں اور تباہ ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ آج کل ریس کی گھوڑ دوڑ میں شرکت کرنا بالکل حرام ہے‘ اللہ ہر مسلمان کو اس تباہی سے بچائے۔آمین حضرت امام بخاری کا مقصد باب یہ ہے کہ اضمار شدہ گھوڑوں کی دوڑ کی حد چھ یا سات میل ہے جیسا کہ مقام حفیاء اور ثنیۃ الوداع کا فاصلہ ہے اور غیر اضمار شدہ کی حد تقریباً ایک میل جو ثنیۃ الوداع اور مسجد بنو زریق کی حد تھی۔ ایک متمدن حکومت کے لئے اس مشینی دور میں بھی گھوڑے کی بڑی اہمیت ہے۔ عربی نس کے گھوڑے جو فوقیت رکھتے ہیں وہ محتاج تشریح نہیں۔ زمانۂ رسالت میں گھوڑوں کو سدھانے کے لیے یہ مقابلہ کی دوڑ ہوا کرتی تھی مگر آج کل ریس کی دوڑ جو آج عام طور پر شہروں میں کرائی جاتی ہے اور گھوڑوں پر بڑی بڑی رقوم بطور جوئے بازی کے لگائی جاتی ہیں یہ کھلا ہوا جوا ہے جو شرعاً قطعاً حرام ہے اور کسی پر مخفی نہیں۔ صد افسوس کہ عام مسلمانوں نے آج کل حلال و حرام کی تمیز ختم کردی ہے اور کتنے ہی مسلمان ان میں حصہ لیتے ہیں اور تباہ ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ آج کل ریس کی گھوڑ دوڑ میں شرکت کرنا بالکل حرام ہے‘ اللہ ہر مسلمان کو اس تباہی سے بچائے۔آمین