‌صحيح البخاري - حدیث 2868

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ السَّبْقِ بَيْنَ الخَيْلِ صحيح حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «أَجْرَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا ضُمِّرَ مِنَ الخَيْلِ مِنَ الحَفْيَاءِ إِلَى ثَنِيَّةِ الوَدَاعِ، وَأَجْرَى مَا لَمْ يُضَمَّرْ مِنَ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ»، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَكُنْتُ فِيمَنْ أَجْرَى، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ سُفْيَانُ: بَيْنَ الحَفْيَاءِ إِلَى ثَنِيَّةِ الوَدَاعِ خَمْسَةُ أَمْيَالٍ أَوْ سِتَّةٌ، وَبَيْنَ ثَنِيَّةَ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ مِيلٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2868

کتاب: جہاد کا بیان باب : گھوڑ دوڑ کا بیان ہم سے قبیصہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ نے ، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کئے ہوئے گھوڑوں کی دوڑ مقام حفیاءسے ثنیۃ الوداع تک کرائی تھی اور جو گھوڑے تیار نہیں کئے گئے تھے ان کی دوڑ ثنیۃ الوداع سے مسجد زریق تک کرائی تھی ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ گھوڑ دوڑ میں شریک ہونے والوں میں میں بھی تھا ۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبیداللہ نے بیان کیا ، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ حفیاءسے ثنیۃ الوداع تک پانچ میل کا فاصلہ ہے اور ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق صرف ایک میل کے فاصلے پر ہے ۔
تشریح : حفیاء اور ثنیۃ الوداع دونوں مقاموں کے نام ہیں‘ مدینہ سے باہر تیار کئے گئے یعنی ان کا اضمار کیا گیا۔ اضمار اس کو کہتے ہیں کہ پہلے گھوڑے کو خوب کھلا پلا کر موٹا کیا جائے پھر اس کا دانہ چارہ کم کردیا جائے اور کوٹھڑی میں جھول ڈال کر بند رہنے دیں تاکہ پسینہ خوب کرے اور اس کا گوشت کم ہو جائے اور شرط میں دوڑنے کے لائق ہو جائے۔ گھوڑ دوڑ کے متعلق حافظ صاحب فرماتے ہیں وقد اجمع العلماء علی جواز المسابقۃ بغیر عوض لکن قصرھا مالک والشافعی علی الخف والحافر والنصل وخصہ بعض العلماء بالخیل واجازہ عطاء فی کل شئی الخ (فتح الباری) یعنی علمائے اسلام نے دوڑ کرانے کے جواز پر اتفاق کیا ہے جس میں بطور شرط کوئی معاوضہ مقرر نہ کیا گیا ہو لیکن امام شافعی اور امام مالک نے اس دوڑ کو اونٹ اور گھوڑے اور تیر اندازی کے ساتھ خاص کیا ہے اور بعض علماء نے اسے صرف گھوڑے کے ساتھ خاص کیا ہے اور عطاء نے اس مسابقت کو ہر چیز میں جائز رکھا ہے۔ ایک روایت میں ہے لا سبق الافی خف او حافر او نصل یعنی آگے بڑھنے کی شرط تین چیزوں میں درست ہے‘ اونٹ اور گھوڑے اور تیر اندازی میں اور ایک روایت میں یوں ہے من ادخل فرسا بین فرسین فان کان یومن ان یسبق فلا خبر فیہ (لغات الحدیث) (حرف س‘ص:۳۰) جس شخص نے ایک گھوڑا شرط کے دو گھوڑوں میں شریک کیا اگر اس کو یہ یقین ہے کہ یہ گھوڑا ان دونوں سے آگے بڑھ جائے گا تب تو بہتر نہیں اگر یہ یقین نہیں تو شرط جائز ہے۔ اس تیسرے شخص کو محلل کہتے ہیں یعنی شرط کو حلال کردینے والا مزید تفصیل کے لئے دیکھو (لغات الحدیث‘ حرف س ‘ صفحہ ۳۰) حفیاء اور ثنیۃ الوداع دونوں مقاموں کے نام ہیں‘ مدینہ سے باہر تیار کئے گئے یعنی ان کا اضمار کیا گیا۔ اضمار اس کو کہتے ہیں کہ پہلے گھوڑے کو خوب کھلا پلا کر موٹا کیا جائے پھر اس کا دانہ چارہ کم کردیا جائے اور کوٹھڑی میں جھول ڈال کر بند رہنے دیں تاکہ پسینہ خوب کرے اور اس کا گوشت کم ہو جائے اور شرط میں دوڑنے کے لائق ہو جائے۔ گھوڑ دوڑ کے متعلق حافظ صاحب فرماتے ہیں وقد اجمع العلماء علی جواز المسابقۃ بغیر عوض لکن قصرھا مالک والشافعی علی الخف والحافر والنصل وخصہ بعض العلماء بالخیل واجازہ عطاء فی کل شئی الخ (فتح الباری) یعنی علمائے اسلام نے دوڑ کرانے کے جواز پر اتفاق کیا ہے جس میں بطور شرط کوئی معاوضہ مقرر نہ کیا گیا ہو لیکن امام شافعی اور امام مالک نے اس دوڑ کو اونٹ اور گھوڑے اور تیر اندازی کے ساتھ خاص کیا ہے اور بعض علماء نے اسے صرف گھوڑے کے ساتھ خاص کیا ہے اور عطاء نے اس مسابقت کو ہر چیز میں جائز رکھا ہے۔ ایک روایت میں ہے لا سبق الافی خف او حافر او نصل یعنی آگے بڑھنے کی شرط تین چیزوں میں درست ہے‘ اونٹ اور گھوڑے اور تیر اندازی میں اور ایک روایت میں یوں ہے من ادخل فرسا بین فرسین فان کان یومن ان یسبق فلا خبر فیہ (لغات الحدیث) (حرف س‘ص:۳۰) جس شخص نے ایک گھوڑا شرط کے دو گھوڑوں میں شریک کیا اگر اس کو یہ یقین ہے کہ یہ گھوڑا ان دونوں سے آگے بڑھ جائے گا تب تو بہتر نہیں اگر یہ یقین نہیں تو شرط جائز ہے۔ اس تیسرے شخص کو محلل کہتے ہیں یعنی شرط کو حلال کردینے والا مزید تفصیل کے لئے دیکھو (لغات الحدیث‘ حرف س ‘ صفحہ ۳۰)