‌صحيح البخاري - حدیث 2867

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ الفَرَسِ القَطُوفِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ أَهْلَ المَدِينَةِ فَزِعُوا مَرَّةً، فَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ كَانَ يَقْطِفُ - أَوْ كَانَ فِيهِ قِطَافٌ - فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ: «وَجَدْنَا فَرَسَكُمْ هَذَا بَحْرًا، فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ لاَ يُجَارَى»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2867

کتاب: جہاد کا بیان باب : سست رفتار گھوڑے پر سوار ہونا ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک مرتبہ ( رات میں ) اہل مدینہ کو دشمن کا خطرہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے ( مندوب ) پر سوار ہوئے ، گھوڑا سست رفتار تھا یا ( راوی نے یوں کہا کہ ) اس کی رفتار میں سستی تھی ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو فرمایا کہ ہم نے تو تمہارے اس گھوڑے کو دریا پایا ( یہ بڑا ہی تیز رفتار ہے ) چنانچہ اس کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں نکل سکتا تھا ۔
تشریح : یہ گھوڑا بے حد سست رفتار تھا لیکن آنحضرتﷺ کی سواری کی برکت سے ایسا تیز اور چالاک ہوگیا کہ کوئی گھوڑا اس کے برابر نہیں چل سکتا تھا۔ آپ اس سست رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے‘ اسی سے باب کا مطلب نکلا۔ آنحضرتﷺ نے یہ اقدام فرما کر آئندہ آنے والے خلفائے اسلام کے لئے ایک مثال قائم فرمائی تاکہ وہ سست الوجود بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ہر موقع پر بہادری و جرأت و مقابلہ میں عوام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ یہ گھوڑا بے حد سست رفتار تھا لیکن آنحضرتﷺ کی سواری کی برکت سے ایسا تیز اور چالاک ہوگیا کہ کوئی گھوڑا اس کے برابر نہیں چل سکتا تھا۔ آپ اس سست رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے‘ اسی سے باب کا مطلب نکلا۔ آنحضرتﷺ نے یہ اقدام فرما کر آئندہ آنے والے خلفائے اسلام کے لئے ایک مثال قائم فرمائی تاکہ وہ سست الوجود بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ہر موقع پر بہادری و جرأت و مقابلہ میں عوام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں۔