كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ رُكُوبِ الفَرَسِ العُرْيِ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «اسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ عُرْيٍ مَا عَلَيْهِ سَرْجٌ فِي عُنُقِهِ سَيْفٌ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہونا
ہم سے عمروبن عون نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر جس پرزین نہیں تھی ، سوار ہوکر صحابہ سے آگے نکل گئے تھے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں تلوار لٹک رہی تھی ۔
تشریح :
سبحان اللہ! یہ حسن و جمال اور یہ شجاعت اور بہادری ننگی پیٹھ گھوڑے پر سواری کرنا بڑے ہی شہسواروں کا کام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس فن میں آنحضرتﷺ یکتائے روزگار تھے۔ بارہا ایسے مواقع آئے کہ آپؐ نے بہترین شہسواری کا ثبوت پیش فرمایا۔صد افسوس کہ آج کل عوام تو درکنار خواص یعنی علماء و مشائخ نے ایسی اہم سنتوں کو بالکل ترک کردیا ہے۔ خاص کر علماء کرام میں بہت ہی کم ایسے ملیں گے جو ایسے فنون مسنونہ سے الفت رکھتے ہوں حالانکہ یہ فنون قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کے عوام و خواص میں بہت زیادہ ترویج کے قابل ہیں۔ آج کل نشانہ بازی جو بندوق سے سکھائی جاتی ہے وہ بھی اسی میں داخل ہے اور فن حرب سے متعلق جو نئی ایجادات ہیں‘ ان سب کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
سبحان اللہ! یہ حسن و جمال اور یہ شجاعت اور بہادری ننگی پیٹھ گھوڑے پر سواری کرنا بڑے ہی شہسواروں کا کام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس فن میں آنحضرتﷺ یکتائے روزگار تھے۔ بارہا ایسے مواقع آئے کہ آپؐ نے بہترین شہسواری کا ثبوت پیش فرمایا۔صد افسوس کہ آج کل عوام تو درکنار خواص یعنی علماء و مشائخ نے ایسی اہم سنتوں کو بالکل ترک کردیا ہے۔ خاص کر علماء کرام میں بہت ہی کم ایسے ملیں گے جو ایسے فنون مسنونہ سے الفت رکھتے ہوں حالانکہ یہ فنون قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کے عوام و خواص میں بہت زیادہ ترویج کے قابل ہیں۔ آج کل نشانہ بازی جو بندوق سے سکھائی جاتی ہے وہ بھی اسی میں داخل ہے اور فن حرب سے متعلق جو نئی ایجادات ہیں‘ ان سب کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔