‌صحيح البخاري - حدیث 2829

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابٌ: الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى القَتْلِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ: المَطْعُونُ، وَالمَبْطُونُ، وَالغَرِقُ، وَصَاحِبُ الهَدْمِ، وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2829

کتاب: جہاد کا بیان باب : اللہ کی راہ میں مارے جانے کے سواشہادت کی اور بھی سات قسمیں ہیں ہم سے حمیدی نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھے عنبسہ بن سعید نے خبردی اوران سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں ٹھہرے ہوئے تھے اور خیبر فتح ہوچکا تھا ، میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میرا بھی ( مال غنیمت میں ) حصہ لگائیے ۔ سعید بن العاص کے ایک لڑکے ( ابان بن سعید رضی اللہ عنہ ) نے کہا یا رسول اللہ ! ان کا حصہ نہ لگائیے ۔ اس پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بولے کہ یہ شخص تو ابن قوقل ( نعمان بن مالک رضی اللہ عنہ ) کا قاتل ہے ۔ ابان بن سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کتنی عجیب بات ہے کہ یہ جانور ( یعنی ابوہریرہ ابھی تو پہاڑ کی چوٹی سے بکریاں چراتے چراتے یہاں آگیا ہے اورایک مسلمان کے قتل کا مجھ پرالزام لگاتا ہے ۔ اس کو یہ خبر نہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے ( شہادت ) عزت دی اور مجھے اس کے ہاتھوں سے ذلیل ہونے سے بچالیا ( اگر اس وقت میں مارا جاتا ) تو دوزخی ہوتا‘ عنبسہ نے بیان کیا کہ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کابھی حصہ لگایایا نہیں ۔ سفیان نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سعیدی نے اپنے دادا کے واسطے سے بیان کیا اورانہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ۔ ابو عبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا کہ سعیدی سے مراد عمرو بن یحیٰ بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص ہیں ۔
تشریح : : بعض احادیث میں شہادت کی سات قسموں کا صاف ذکر آیا ہے‘ حضرت امامؒ نے عنوان انہیں احادیث کے پیش نظر لگایا ہے لیکن چونکہ یہ احادیث ان کی شرائط پر نہیں تھیں‘ اس لئے انہیں باب کے تحت نہیں لائے۔ مقصد یہ ہے کہ شہادت صرف جہاد کرتے ہوئے قتل ہو جانے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پانے کا درجہ بہت ہی بلند ہے۔ (دوسری روایتوں میں ہے کہ جو جل کر یا نمونیہ میں مر جائے یا عورت زچگی میں یا آدمی اپنے مال و جان کی حفاظت میں یا سفر میں یا سانپ اور بچھو کے کاٹنے سے یا درندے کے پھاڑنے سے مر جائے‘ وہ شہید ہے‘ امام نوویؒ فرماتے ہیں المراد بشھادۃ ھٰولاء کلھم غیر المقتول فی سبیل اللہ انھم یکون لھم ثواب الشھداء واما فی الدنیا فیغسلون ویصلے علیھم وقد سبق فی کتاب الایمان بیان ھذا وان الشھداء ثلاثۃ اقسام شھید فی الدنیا والآخرۃ وھو المقتول فی حرب الکفار وشھید فی الاخرۃ دون احکام الدنیا وھم ھٰولاء المذکورون ھنا وشھید فی الدنیا دون الاخرۃ وھو من غل فی الغنیمۃ او قتل مدبرا ( نووی‘ ج: ۲؍ ص : ۱۴۳) یعنی مقتول کے علاوہ ان جملہ شہادتوں سے مراد یہ کہ آخرت میں ان کو شہداء کا ثواب ملے گا مگر دنیا میں وہ شہداء کی طرح نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی طرح غسل دئیے جائیں گے اور ان پر نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔ شہداء تین قسم کے ہوتے ہیں‘ ایک تو وہ ہیں جو دنیا و آخرت میں شہید ہی ہیں‘ جو جہاد میں کفار کے ہاتھوں سے مارے جائیں۔ دوسری قسم کے شہید وہ جو آخرت میں شہید ہوئے مگر آخرت میں شہید نہیں‘ وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے مال غنیمت وغیرہ میں خیانت کی۔ تیسری قسم کے شہید وہ جو دنیا میں شہید ہیں مگر دنیا میں ان پر احکام شہداء جاری نہ ہوں گے‘ ایسے ہی شہداء یہاں مذکور ہیں۔ لفظ شہید کی حقیقت بتلانے کے لئے حضرت امام نووی شارح مسلم لکھتے ہیں: واما سبب تسمیتہ شھیداً فقال النضر بن شمیل لانہ حی فان ارواحھم شھدت و حضرت دارالسلام و ارواح غیرھم انما تشھدھا یوم القیامۃ وقال ابن الانباری لان اللہ تعالٰی وملائکتہ علیھم الصلٰوۃ والسلام یشھدون لہ بالجنۃ وقیل لانہ شھد عند خروج روحہ ما اعدہ اللہ تعالیٰ لہ من الثواب والکرامۃ وقیل لان ملائکۃ الرحمۃ یشھدونہ فیاخذونہ روحہ وقیل لانہ شھدلہ بالایمان وخاتمۃ الخیر بظاھر حالہ وقیل لان علیہ شاھدا بکونہ شھیدا وھو الدم وقیل لانہ یشھد علی الامم یوم القیامۃ بابلاغ الرسل الرسالۃ الیھم وعلی ھذا القول یشارکھم غیرھم فی ھذا الوصف ( نووی‘ ج: ۲؍ ص: ۱۳۴) یعنی شہید کی وجہ تسمیہ کے بارے میں پس نضر بن شمیل نے کہا کہ وہ زندہ ہے یعنی ان کی روح دارالسلام میں زندہ اور حاضر رہتی ہے جبکہ ان کے غیر کی روحیں قیامت کے دن وہاں حاضر ہوں گی۔ ابن انباری نے کہا اس لئے کہ اللہ پاک اور اس کے فرشتے اس کے لئے جنت کی شہادت دیتے ہیں اور کہا گیا کہ اس لئے کہ جب بھی اس کی روح نکلی اس نے ثواب اور کرامت سے متعلق اللہ کے وعدوں کا مشاہدہ کیا اور کہا گیا کہ اس لئے کہ رحمت کے فرشتے اس کی شہادت کے وقت حاضر ہوتے اور اس کی روح کو لے لیتے ہیں اور کہا گیا کہ اس لئے کہ ظاہری شہادت کی بنا پر اس کے ایمان اور خاتمہ بالخیر کی شہادت دی گئی اور کہا گیا کہ اس پر اس کا خون شاہد ہوگا جو اس کے شہید ہونے کی شہادت دے گاور کہا گیا کہ اس لئے کہ وہ قیامت کے دن دوسری امتوں پر شہادت دے گا کہ ان کے رسولوں نے ان کو اللہ کے پیغامات پہنچا دئیے اور اس قول پر ان کے غیر بھی اس میں ان کے شریک ہوں گے۔ : بعض احادیث میں شہادت کی سات قسموں کا صاف ذکر آیا ہے‘ حضرت امامؒ نے عنوان انہیں احادیث کے پیش نظر لگایا ہے لیکن چونکہ یہ احادیث ان کی شرائط پر نہیں تھیں‘ اس لئے انہیں باب کے تحت نہیں لائے۔ مقصد یہ ہے کہ شہادت صرف جہاد کرتے ہوئے قتل ہو جانے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پانے کا درجہ بہت ہی بلند ہے۔ (دوسری روایتوں میں ہے کہ جو جل کر یا نمونیہ میں مر جائے یا عورت زچگی میں یا آدمی اپنے مال و جان کی حفاظت میں یا سفر میں یا سانپ اور بچھو کے کاٹنے سے یا درندے کے پھاڑنے سے مر جائے‘ وہ شہید ہے‘ امام نوویؒ فرماتے ہیں المراد بشھادۃ ھٰولاء کلھم غیر المقتول فی سبیل اللہ انھم یکون لھم ثواب الشھداء واما فی الدنیا فیغسلون ویصلے علیھم وقد سبق فی کتاب الایمان بیان ھذا وان الشھداء ثلاثۃ اقسام شھید فی الدنیا والآخرۃ وھو المقتول فی حرب الکفار وشھید فی الاخرۃ دون احکام الدنیا وھم ھٰولاء المذکورون ھنا وشھید فی الدنیا دون الاخرۃ وھو من غل فی الغنیمۃ او قتل مدبرا ( نووی‘ ج: ۲؍ ص : ۱۴۳) یعنی مقتول کے علاوہ ان جملہ شہادتوں سے مراد یہ کہ آخرت میں ان کو شہداء کا ثواب ملے گا مگر دنیا میں وہ شہداء کی طرح نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی طرح غسل دئیے جائیں گے اور ان پر نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔ شہداء تین قسم کے ہوتے ہیں‘ ایک تو وہ ہیں جو دنیا و آخرت میں شہید ہی ہیں‘ جو جہاد میں کفار کے ہاتھوں سے مارے جائیں۔ دوسری قسم کے شہید وہ جو آخرت میں شہید ہوئے مگر آخرت میں شہید نہیں‘ وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے مال غنیمت وغیرہ میں خیانت کی۔ تیسری قسم کے شہید وہ جو دنیا میں شہید ہیں مگر دنیا میں ان پر احکام شہداء جاری نہ ہوں گے‘ ایسے ہی شہداء یہاں مذکور ہیں۔ لفظ شہید کی حقیقت بتلانے کے لئے حضرت امام نووی شارح مسلم لکھتے ہیں: واما سبب تسمیتہ شھیداً فقال النضر بن شمیل لانہ حی فان ارواحھم شھدت و حضرت دارالسلام و ارواح غیرھم انما تشھدھا یوم القیامۃ وقال ابن الانباری لان اللہ تعالٰی وملائکتہ علیھم الصلٰوۃ والسلام یشھدون لہ بالجنۃ وقیل لانہ شھد عند خروج روحہ ما اعدہ اللہ تعالیٰ لہ من الثواب والکرامۃ وقیل لان ملائکۃ الرحمۃ یشھدونہ فیاخذونہ روحہ وقیل لانہ شھدلہ بالایمان وخاتمۃ الخیر بظاھر حالہ وقیل لان علیہ شاھدا بکونہ شھیدا وھو الدم وقیل لانہ یشھد علی الامم یوم القیامۃ بابلاغ الرسل الرسالۃ الیھم وعلی ھذا القول یشارکھم غیرھم فی ھذا الوصف ( نووی‘ ج: ۲؍ ص: ۱۳۴) یعنی شہید کی وجہ تسمیہ کے بارے میں پس نضر بن شمیل نے کہا کہ وہ زندہ ہے یعنی ان کی روح دارالسلام میں زندہ اور حاضر رہتی ہے جبکہ ان کے غیر کی روحیں قیامت کے دن وہاں حاضر ہوں گی۔ ابن انباری نے کہا اس لئے کہ اللہ پاک اور اس کے فرشتے اس کے لئے جنت کی شہادت دیتے ہیں اور کہا گیا کہ اس لئے کہ جب بھی اس کی روح نکلی اس نے ثواب اور کرامت سے متعلق اللہ کے وعدوں کا مشاہدہ کیا اور کہا گیا کہ اس لئے کہ رحمت کے فرشتے اس کی شہادت کے وقت حاضر ہوتے اور اس کی روح کو لے لیتے ہیں اور کہا گیا کہ اس لئے کہ ظاہری شہادت کی بنا پر اس کے ایمان اور خاتمہ بالخیر کی شہادت دی گئی اور کہا گیا کہ اس پر اس کا خون شاہد ہوگا جو اس کے شہید ہونے کی شہادت دے گاور کہا گیا کہ اس لئے کہ وہ قیامت کے دن دوسری امتوں پر شہادت دے گا کہ ان کے رسولوں نے ان کو اللہ کے پیغامات پہنچا دئیے اور اس قول پر ان کے غیر بھی اس میں ان کے شریک ہوں گے۔