كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَنِ اخْتَارَ الغَزْوَ عَلَى الصَّوْمِ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ البُنَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «كَانَ أَبُو طَلْحَةَ لاَ يَصُومُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَجْلِ الغَزْوِ، فَلَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أَرَهُ مُفْطِرًا إِلَّا يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : جہاد کو ( نفلی روزوں پر ) مقدم رکھنا
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ثابت بنانی نے‘ کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ ابو طلحہ زید بن سہیل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جہادوں میں شرکت کے خیال سے ( نفلی روزے نہیں رکھتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر میں نے انہیں عیدالفطر اور عید الاضحی کے سوا روزے کے بغیر نہیں دیکھا ۔
تشریح :
جہاد ایک ایسا عمل ہے جس میں فرض نماز بھی کم ہو جاتی ہے پھر نفلی نماز اور روزوں کا ذکر ہی کیا ہے کیونکہ جہاد ان سب پر مقدم ہے مگر عام طور پر مسلمان اس فریضہ سے غافل ہوگئے اور نفلی بلکہ خود ساختہ نمازوں‘ وظیفوں نے ان کو میدان جہاد سے قطعاً غافل کر دیا الا ماشاء اللہ۔ پیچھے بتلایا جا چکا ہے کہ اسلام میں جہاد یعنی قتال محض مدافعانہ طور پر ہے جارحانہ ہرگز اسلام نے جنگ کو جائز نہیں رکھا۔
جہاد ایک ایسا عمل ہے جس میں فرض نماز بھی کم ہو جاتی ہے پھر نفلی نماز اور روزوں کا ذکر ہی کیا ہے کیونکہ جہاد ان سب پر مقدم ہے مگر عام طور پر مسلمان اس فریضہ سے غافل ہوگئے اور نفلی بلکہ خود ساختہ نمازوں‘ وظیفوں نے ان کو میدان جہاد سے قطعاً غافل کر دیا الا ماشاء اللہ۔ پیچھے بتلایا جا چکا ہے کہ اسلام میں جہاد یعنی قتال محض مدافعانہ طور پر ہے جارحانہ ہرگز اسلام نے جنگ کو جائز نہیں رکھا۔