‌صحيح البخاري - حدیث 2826

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ الكَافِرِ يَقْتُلُ المُسْلِمَ، ثُمَّ يُسْلِمُ، فَيُسَدِّدُ بَعْدُ وَيُقْتَلُ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَضْحَكُ اللَّهُ إِلَى رَجُلَيْنِ يَقْتُلُ أَحَدُهُمَا الآخَرَ يَدْخُلاَنِ الجَنَّةَ: يُقَاتِلُ هَذَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَيُقْتَلُ، ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَى القَاتِلِ، فَيُسْتَشْهَدُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2826

کتاب: جہاد کا بیان باب : کافر اگر کفر کی حالت میں مسلمان کو مارے پھر مسلمان ہوجائے‘ اسلام پر مضبوط رہے اوراللہ کی راہ میں مارا جائے تو اس کی فضیلت کا بیان ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ابو الزناد سے‘ انہوں نے اعرج سے اورانہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قیامت کے دن ) اللہ تعالیٰ ایسے دو آدمیوں پر ہنس دے گا کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا تھا اور پھر بھی دونوں جنت میں داخل ہوگئے ۔ پہلا وہ جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا وہ شہید ہوگیا‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قاتل کو توبہ کی توفیق دی اوروہ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوا ۔ اس طرح دونوں قاتل و مقتول بالآخر جنت میںداخل ہوگئے ۔
تشریح : : یعنی قاعدہ تو یہ ہے کہ قاتل اور مقتول ایک ساتھ جنت یا جہنم میں جمع نہ ہوں‘ اگر مقتول اور شہید (اللہ کے راستے کا) جنتی ہے تو یقیناً ایسے انسان کا قاتل جہنم میں جائے گا لیکن اللہ پاک خود اپنی قدرت کے عجائبات ملاحظہ فرماتا ہے تو اسے ہنسی آجاتی ہے کہ ایک شخص نے کافروں کی طرف سے لڑتے ہوئے ایک مسلمان مجاہد کو شہید کردیا پھر خدا کی قدرت کہ اسے بھی یہ ایمان کی حالت نصیب ہوئی اور اس کے بعد وہ مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا اور اس طرح قاتل اور مقتول دونوں جنت میں داخل ہوگئے۔ اللہ پاک جب اپنی قدرت کا یہ عجوبہ دیکھتا ہے تو ہنسی آجاتی ہے جیسے اللہ کی اور صفات حق ہیں اس طرح اس کا ہنسنا بھی حق ہے۔ جس کی کیفیت میں کرید کرنا بدعت ہے‘ سلف کا یہی مسلک ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام لانے سے اور جہاد کرنے سے کفر کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘ امام احمد اور ہمام کی روایت سے یہ صراحت نکلتی ہے کہ ان دو شخصوں میں ایک مومن تھا ایک کافر۔ پس اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو عمداً یعنی جان بوجھ کر کسی شرعی وجہ کے بغیر قتل کرکے قاتل توبہ کرے اور اللہ کی راہ میں شہید ہو تو اس کا گناہ معاف نہ ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا یہی قول ہے کہ قاتل مومن کی توبہ قبول نہیں اور جمہور علماء کہتے ہیں کہ اس کی توبہ صحیح ہے اور آیت (وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا) (النساء: ۹۳) برطریق غلیظ ہے کہ لوگ اس سے باز رہیں‘ خلود سے مراد بہت مدت تک رہنا ہے (خلاصہ وحیدی) آج عیدالاضحیٰ ۹۱ھ کو جبکہ جماعت کی دعوت پر بمبئی عیدالاضحیٰ پڑھانے آیا ہوا تھا‘ یہ تشریحی بیان حوالۂ قلم کیا گیا۔ اللہ پاک آج کے مبارک دن میں یہ دعا قبول کرے کہ اس مبارک کتاب کی تکمیل کا شرف حاصل ہو۔ آمین یا رب العالمین۔ قال ابن الجوزی اکثر السلف یمتنعون من تاویل مثل ھذا ویرونہ کما جاء وینبغی ان یراعی مثل فی مثل ھذا الامرار اعتقاد انہ یشبہ صفات اللہ صفات الخلق و معنی الامرار عدم العلم بالمراد منہ مع اعتقاد التنزیہ (فتح الباری) یعنی ابن جوزی نے فرمایا کہ اکثر سلف صالحین اس قسم کی صفات الٰہی کی تاویل منع جانتے ہیں بلکہ جس طرح یہ وارد ہوتی ہیں اسی طرح تسلیم کرتے ہیں‘ اس اعتقاد کے ساتھ کہ اللہ کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں۔ تسلیم کرنے کا مطلب یہ کہ ہم کو ان کے معانی معلوم ہیں‘ کیفیت معلوم نہیں۔ : یعنی قاعدہ تو یہ ہے کہ قاتل اور مقتول ایک ساتھ جنت یا جہنم میں جمع نہ ہوں‘ اگر مقتول اور شہید (اللہ کے راستے کا) جنتی ہے تو یقیناً ایسے انسان کا قاتل جہنم میں جائے گا لیکن اللہ پاک خود اپنی قدرت کے عجائبات ملاحظہ فرماتا ہے تو اسے ہنسی آجاتی ہے کہ ایک شخص نے کافروں کی طرف سے لڑتے ہوئے ایک مسلمان مجاہد کو شہید کردیا پھر خدا کی قدرت کہ اسے بھی یہ ایمان کی حالت نصیب ہوئی اور اس کے بعد وہ مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا اور اس طرح قاتل اور مقتول دونوں جنت میں داخل ہوگئے۔ اللہ پاک جب اپنی قدرت کا یہ عجوبہ دیکھتا ہے تو ہنسی آجاتی ہے جیسے اللہ کی اور صفات حق ہیں اس طرح اس کا ہنسنا بھی حق ہے۔ جس کی کیفیت میں کرید کرنا بدعت ہے‘ سلف کا یہی مسلک ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام لانے سے اور جہاد کرنے سے کفر کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘ امام احمد اور ہمام کی روایت سے یہ صراحت نکلتی ہے کہ ان دو شخصوں میں ایک مومن تھا ایک کافر۔ پس اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو عمداً یعنی جان بوجھ کر کسی شرعی وجہ کے بغیر قتل کرکے قاتل توبہ کرے اور اللہ کی راہ میں شہید ہو تو اس کا گناہ معاف نہ ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا یہی قول ہے کہ قاتل مومن کی توبہ قبول نہیں اور جمہور علماء کہتے ہیں کہ اس کی توبہ صحیح ہے اور آیت (وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا) (النساء: ۹۳) برطریق غلیظ ہے کہ لوگ اس سے باز رہیں‘ خلود سے مراد بہت مدت تک رہنا ہے (خلاصہ وحیدی) آج عیدالاضحیٰ ۹۱ھ کو جبکہ جماعت کی دعوت پر بمبئی عیدالاضحیٰ پڑھانے آیا ہوا تھا‘ یہ تشریحی بیان حوالۂ قلم کیا گیا۔ اللہ پاک آج کے مبارک دن میں یہ دعا قبول کرے کہ اس مبارک کتاب کی تکمیل کا شرف حاصل ہو۔ آمین یا رب العالمین۔ قال ابن الجوزی اکثر السلف یمتنعون من تاویل مثل ھذا ویرونہ کما جاء وینبغی ان یراعی مثل فی مثل ھذا الامرار اعتقاد انہ یشبہ صفات اللہ صفات الخلق و معنی الامرار عدم العلم بالمراد منہ مع اعتقاد التنزیہ (فتح الباری) یعنی ابن جوزی نے فرمایا کہ اکثر سلف صالحین اس قسم کی صفات الٰہی کی تاویل منع جانتے ہیں بلکہ جس طرح یہ وارد ہوتی ہیں اسی طرح تسلیم کرتے ہیں‘ اس اعتقاد کے ساتھ کہ اللہ کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں۔ تسلیم کرنے کا مطلب یہ کہ ہم کو ان کے معانی معلوم ہیں‘ کیفیت معلوم نہیں۔