كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ وُجُوبِ النَّفِيرِ، وَمَا يَجِبُ مِنَ الجِهَادِ وَالنِّيَّةِ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ الفَتْحِ: «لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الفَتْحِ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : جہا د کے لئے نکل کھڑا ہونا واجب ہے اور جہادکی نیت رکھنے کا واجب ہونا
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا‘ ہم سے یحیٰ قطان نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے منصور نے بیان کیا مجاہد سے‘ انہوں نے طاؤس سے اورانہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا مکہ فتح ہونے کے بعد ( اب مکہ سے مدینہ کے لئے ) ہجرت باقی نہیں ہے‘ لیکن خلوص نیت کے ساتھ جہاد اب بھی باقی ہے اس لئے تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہو ۔
تشریح :
یہ آیتیں غزوۂ تبوک کے بارے میں نازل ہوئیں۔ تبوک مکہ سے شہر مدینہ کے شمال کی سرحد پر واقع ہے۔ مدینہ منورہ سے تبوک کی مسافت بارہ منزلوں کی ہے۔ شام پر اس وقت عیسائیوں کی حکومت تھی‘ آنحضرتﷺ غزوۂ حنین سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ واپس ہوئے تو آپؐ کو خبر ملی کہ عیسائی فوجیں مقام تبوک میں جمع ہو رہی ہیں اور مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں‘ جن کی آپؐ نے خود ہی بڑھ کر مدافعت کرنی چاہی۔ چنانچہ تیس ہزار فوج آپؐ کے ساتھ ہوگئی‘ لیکن موسم سخت گرمی کا تھا‘ کھجوروں کی فصل پکنے اور کٹنے کا زمانہ تھا جس پر اہل مدینہ کی گزران بڑی حد تک موقوف تھی‘ مقابلہ بھی ایک باقاعدہ فوج سے تھا اور وہ بھی اپنے وقت کی بڑی سلطنت کی فوج اور سفر بھی دور دراز‘ اس لئے بعضوں کی ہمتیں جواب دے گئیں اور منافقین نے تو خوب ہی بہانے لگائے پھر بھی جب عیسائیوں کو حالات کی ناموافقت کے باوجود مسلمانوں کی اس تیاری کا علم ہوا تو خود ہی ان کے حوصلے پست ہوگئے اور انہیں فوج کشی کی ہمت نہ ہوئی۔ لشکر اسلام ایک مدت تک انتظار کے بعد واپس چلا آیا (سورۂ توبہ میں) آیات شریفہ (یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْکُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْھِمْ) ( التوبہ: ۹۴) میں اس جنگ سے متعلقین منافقین کا ذکر ہے دنیا کارگاہ عمل ہے‘ وقت آنے پر جی چرانے والوں کو اسلامی اصطلاح میں لفظ منافق سے یاد کیا گیا ہے کیونکہ اسلام سراسر عملی زندگی کا نام ہے‘ سچ ہے ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یہ آیتیں غزوۂ تبوک کے بارے میں نازل ہوئیں۔ تبوک مکہ سے شہر مدینہ کے شمال کی سرحد پر واقع ہے۔ مدینہ منورہ سے تبوک کی مسافت بارہ منزلوں کی ہے۔ شام پر اس وقت عیسائیوں کی حکومت تھی‘ آنحضرتﷺ غزوۂ حنین سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ واپس ہوئے تو آپؐ کو خبر ملی کہ عیسائی فوجیں مقام تبوک میں جمع ہو رہی ہیں اور مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں‘ جن کی آپؐ نے خود ہی بڑھ کر مدافعت کرنی چاہی۔ چنانچہ تیس ہزار فوج آپؐ کے ساتھ ہوگئی‘ لیکن موسم سخت گرمی کا تھا‘ کھجوروں کی فصل پکنے اور کٹنے کا زمانہ تھا جس پر اہل مدینہ کی گزران بڑی حد تک موقوف تھی‘ مقابلہ بھی ایک باقاعدہ فوج سے تھا اور وہ بھی اپنے وقت کی بڑی سلطنت کی فوج اور سفر بھی دور دراز‘ اس لئے بعضوں کی ہمتیں جواب دے گئیں اور منافقین نے تو خوب ہی بہانے لگائے پھر بھی جب عیسائیوں کو حالات کی ناموافقت کے باوجود مسلمانوں کی اس تیاری کا علم ہوا تو خود ہی ان کے حوصلے پست ہوگئے اور انہیں فوج کشی کی ہمت نہ ہوئی۔ لشکر اسلام ایک مدت تک انتظار کے بعد واپس چلا آیا (سورۂ توبہ میں) آیات شریفہ (یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْکُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْھِمْ) ( التوبہ: ۹۴) میں اس جنگ سے متعلقین منافقین کا ذکر ہے دنیا کارگاہ عمل ہے‘ وقت آنے پر جی چرانے والوں کو اسلامی اصطلاح میں لفظ منافق سے یاد کیا گیا ہے کیونکہ اسلام سراسر عملی زندگی کا نام ہے‘ سچ ہے ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے