كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَسْحِ الغُبَارِ عَنِ الرَّأْسِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ لَهُ وَلِعَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ائْتِيَا أَبَا سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَأَتَيْنَاهُ وَهُوَ وَأَخُوهُ فِي حَائِطٍ لَهُمَا يَسْقِيَانِهِ، فَلَمَّا رَآنَا جَاءَ، فَاحْتَبَى وَجَلَسَ، فَقَالَ: كُنَّا نَنْقُلُ لَبِنَ المَسْجِدِ لَبِنَةً لَبِنَةً، وَكَانَ عَمَّارٌ يَنْقُلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَمَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسَحَ عَنْ رَأْسِهِ الغُبَارَ، وَقَالَ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، عَمَّارٌ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : اللہ کے راستے میں جن لوگوں پر گرد پڑی ہو ان کی گرد پونچھنا
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی‘ کہاہم سے خالد نے بیان کیا عکرمہ سے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے اور ( اپنے صاحبزادے ) علی بن عبداللہ سے فرمایا تم دونوں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان سے احادیث نبوی سنو ۔ چنانچہ ہم حاضر ہوئے‘ اس وقت ابو سعید رضی اللہ عنہ اپنے ( رضاعی ) بھائی کے ساتھ باغ میں تھے اور باغ کو پانی دے رہے تھے‘ جب آپ نے ہمیں دیکھا تو ( ہمارے پاس ) تشریف لائے اور ( چادراوڑھ کر ) گوٹ مارکر بیٹھ گئے‘ اسکے بعد بیان فرمایا ہم مسجد نبوی کی اینٹیں ( ہجرت نبوی کے بعد تعمیر مسجد کیلئے ) ایک ایک کرکے ڈھورہے تھے لیکن عمار رضی اللہ عنہ دودو اینٹیں لارہے تھے‘ اتنے میں نبی کریمم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے اور ان کے سر سے غبار کو صاف کیا پھر فرمایا افسوس ! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی‘ یہ تو انہیں اللہ کی ( اطاعت کی ) طرف دعوت دے رہا گا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے ۔
تشریح :
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے فضائل و حالات پہلے بیان ہوچکے ہیں۔ یہاں مراد جنگ صفین سے ہے جس میں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں تھے اور ۳۵ھ میں یہ وہاں ہی ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے ازراہ شفقت و محبت ان کا سر گرد و غبار سے صاف کیا‘ اس سے ان کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوئی اور باب کا مقصد بھی ثابت ہوا۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے فضائل و حالات پہلے بیان ہوچکے ہیں۔ یہاں مراد جنگ صفین سے ہے جس میں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں تھے اور ۳۵ھ میں یہ وہاں ہی ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے ازراہ شفقت و محبت ان کا سر گرد و غبار سے صاف کیا‘ اس سے ان کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوئی اور باب کا مقصد بھی ثابت ہوا۔