كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُبَارَكِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا عَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عَبْسٍ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَبْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا اغْبَرَّتْ [ص:21] قَدَمَا عَبْدٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَمَسَّهُ النَّارُ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : جس کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوئے اس کا ثواب
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ‘کہا ہم کو محمد بن مبارک نے خبر دی‘ کہا ہم سے یحیٰ بن حمزہ نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے یزیدبن ابی مریم نے بیان کیا‘ انہیں عبایہ بن رافع بن خدیج نے خبردی‘ کہا کہ مجھے ابو عبس رضی اللہ عنہ نے خبر دی‘ آپ کا نام عبدالرحمن بن جبیر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس بندے کے بھی قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوگئے‘ انہیں ( جہنم کی ) آگ چھوئے ؟ ( یہ نا ممکن ہے )
تشریح :
پوری آیات باب کا ترجمہ یہ ہے ’’ مدینہ والوں کو اور جو ان کے آس پاس گنوار رہتے ہیں‘ یہ مناسب نہ تھا کہ اللہ کے پیغمبر کے پیچھے بیٹھ رہیں اور اس کی جان کی فکر نہ کرکے اپنی جان بچانے کی فکر میں رہیں۔ اس لئے کہ لوگوں کو یعنی جہاد کرنے والوں کو خدا کی راہ میں پیاس ہو‘ بھوک ہو‘ اس مقام پر چلیں جس سے کافر خفا ہوں‘ دشمن کو کچھ بھی نقصان پہنچائیں‘ ہر ہر کے بدل ان پانچوں کاموں میں ان کا نیک عمل خدا کے پاس لکھ لیا جاتا ہے‘ بے شک اللہ نیکوں کی محنت برباد نہیں کرتا۔‘‘ اس آیت سے امام بخاری نے باب کا مطلب نکالا کہ اللہ کی راہ میں اگر آدمی ذرا بھی چلے اور پاؤں پر گرد پڑے تو بھی ثواب ملے گا‘ جب اللہ کی راہ میں پاؤں گرد آلود ہونے سے یہ اثر ہو کہ دوزخ کی آگ چھوئے بھی نہیں تو وہ لوگ کیسے دوزخ میں جائیں گے جنہوں نے اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں کوشش کی ہوگی۔ اگر ان سے کچھ قصور بھی ہوگئے ہیں تو اللہ جل جلالہ سے امید معافی ہے۔ اس حدیث سے مجاہدین کو خوش ہونا چاہئے کہ وہ دوزخ سے محفوظ رہیں گے (وحیدی)
پوری آیات باب کا ترجمہ یہ ہے ’’ مدینہ والوں کو اور جو ان کے آس پاس گنوار رہتے ہیں‘ یہ مناسب نہ تھا کہ اللہ کے پیغمبر کے پیچھے بیٹھ رہیں اور اس کی جان کی فکر نہ کرکے اپنی جان بچانے کی فکر میں رہیں۔ اس لئے کہ لوگوں کو یعنی جہاد کرنے والوں کو خدا کی راہ میں پیاس ہو‘ بھوک ہو‘ اس مقام پر چلیں جس سے کافر خفا ہوں‘ دشمن کو کچھ بھی نقصان پہنچائیں‘ ہر ہر کے بدل ان پانچوں کاموں میں ان کا نیک عمل خدا کے پاس لکھ لیا جاتا ہے‘ بے شک اللہ نیکوں کی محنت برباد نہیں کرتا۔‘‘ اس آیت سے امام بخاری نے باب کا مطلب نکالا کہ اللہ کی راہ میں اگر آدمی ذرا بھی چلے اور پاؤں پر گرد پڑے تو بھی ثواب ملے گا‘ جب اللہ کی راہ میں پاؤں گرد آلود ہونے سے یہ اثر ہو کہ دوزخ کی آگ چھوئے بھی نہیں تو وہ لوگ کیسے دوزخ میں جائیں گے جنہوں نے اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں کوشش کی ہوگی۔ اگر ان سے کچھ قصور بھی ہوگئے ہیں تو اللہ جل جلالہ سے امید معافی ہے۔ اس حدیث سے مجاہدین کو خوش ہونا چاہئے کہ وہ دوزخ سے محفوظ رہیں گے (وحیدی)