‌صحيح البخاري - حدیث 2806

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: صحيح وَقَالَ إِنَّ أُخْتَهُ وَهِيَ تُسَمَّى الرُّبَيِّعَ كَسَرَتْ ثَنِيَّةَ امْرَأَةٍ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ لاَ تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا، فَرَضُوا بِالأَرْشِ، وَتَرَكُوا القِصَاصَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2806

کتاب: جہاد کا بیان باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ انہوں نے بیا ن کیا کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی ایک بہن ربیع نامی رضی اللہ عنہ نے کسی خاتون کے آگے کے دانت توڑدیئے تھے‘ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قصاص لینے کا حکم دیا ۔ انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنایا ہے ( قصاص میں ) ان کے دانت نہ ٹوٹیں گے ۔ چنانچہ مدعی تاوان لینے پر راضی ہوگئے اورقصاص کا خیال چھوڑ دیا‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھالیں تو اللہ خود ان کی قسم پوری کردیتا ہے ۔
تشریح : حضرت انس بن نضر نے جو کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ میں دونوں کاموں سے ناراض ہوں‘ مشرک تو کم بخت ناپاک ہیں جو ناحق پر لڑ رہے ہیں۔ ان سے قطعاً بیزار ہوں اور مسلمان جن کو حق پر جم کر لڑنا چاہئے تھا وہ بھاگ نکلے ہیں‘ ان کی حرکت کو بھی ناپسند کرتا ہوں اور تیری درگاہ میں معذرت کرتا ہوں کہ میں ان بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ یہ کہہ کر انہوں نے کفار پر حملہ کیا اور کتنوں کو جہنم رسید کرتے ہوئے آخر جام شہادت پی لیا۔ بھاگنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو جنگ احد میں ایک درے کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا اور بتاکید کہہ دیا گیا تھا کہ تا اذن ہرگز درہ نہ چھوڑیں مگر انہوں نے شروع میں مسلمانوں کی فتح دیکھی تو درہ خالی چھوڑ دیا اور جس میں سے کفار قریش نے دوبارہ وار کیا اور میدان احد کا نقشہ ہی بدل گیا‘ جنگ احد اسلامی تاریخ کا ایک بہت ہی دردناک معرکہ ہے جس میں ستر مسلمان شہید ہوئے اور اسلام کو بڑا زبردست نقصان پہنچا۔ میدان احد میں گنج شہیدان ان ہی شہدائے احد کا یادگاری قبرستان ہے۔ جزاھم اللہ جزا حسنا بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے یہ سب پود اسی کی لگائی ہوئی ہے حضرت انس بن نضر نے جو کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ میں دونوں کاموں سے ناراض ہوں‘ مشرک تو کم بخت ناپاک ہیں جو ناحق پر لڑ رہے ہیں۔ ان سے قطعاً بیزار ہوں اور مسلمان جن کو حق پر جم کر لڑنا چاہئے تھا وہ بھاگ نکلے ہیں‘ ان کی حرکت کو بھی ناپسند کرتا ہوں اور تیری درگاہ میں معذرت کرتا ہوں کہ میں ان بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ یہ کہہ کر انہوں نے کفار پر حملہ کیا اور کتنوں کو جہنم رسید کرتے ہوئے آخر جام شہادت پی لیا۔ بھاگنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو جنگ احد میں ایک درے کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا اور بتاکید کہہ دیا گیا تھا کہ تا اذن ہرگز درہ نہ چھوڑیں مگر انہوں نے شروع میں مسلمانوں کی فتح دیکھی تو درہ خالی چھوڑ دیا اور جس میں سے کفار قریش نے دوبارہ وار کیا اور میدان احد کا نقشہ ہی بدل گیا‘ جنگ احد اسلامی تاریخ کا ایک بہت ہی دردناک معرکہ ہے جس میں ستر مسلمان شہید ہوئے اور اسلام کو بڑا زبردست نقصان پہنچا۔ میدان احد میں گنج شہیدان ان ہی شہدائے احد کا یادگاری قبرستان ہے۔ جزاھم اللہ جزا حسنا بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے یہ سب پود اسی کی لگائی ہوئی ہے